اسلامى بيداري



1) انديشہ دينى و جنبش ضد ريم در ايران، تہران ،موسسہ مطالعات تاريخ معاصر ايران ،ص 45_

324

اس دور ميں دينى قوتوں كى ايك ذمہ دارى '' قاعدہ نفى سبيل'' كى بناء پر استعمار سے جنگ اور فرقہ سازى كا مقابلہ كرنا تھا _ كيونكہ استعمارى پاليسيوںنے شيعوں كے درميان تفرقہ اور انتشارڈالنے كيلے فرقہ سازى كى مہم شروع كردى تھى مثلا صوفى مسلك شيخ احمد احسايى كے شاگرد سيد كاظم رشتى كے ذريعے شيخى فرقہ كا بنانا اور سيد كاظم رشتى كے شاگرد على محمد باب كے ذريعے فرقہ بابيہ كا بنايا جايا اسى استعمارى اہداف كى تكميل تھى _ يہ فرقہ بابيہ وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ دو شاخوں ازليہ ( يحيى صبح ازل كے پيروكاروں) اور بہائيہ ( ميرزا حسينعلى بہاء كے پيروكاروں ) ميں تقسيم ہوا روسى استعمار نے ازليہ اور انگلستان كے استعمار نے بہائيہ كى حمايت كى اور ان فرقوں كو اپنے آغوش ميں پرورش دى اور ا نكى نشر و اشاعت كا انتظام كيا_(1)

اگر چہ حاجى ميرزا آقاسى كى صدارت كے دور ميں صوفيوں كے امور كى طرف جھكاؤ نظر آيااورمحمد شاہ قاجار نے بھى اس پر اپنى رضامندى دكھائي تھى _ ليكن ميرزا تقى خان امير كبير كى صدارت كے دور ميں صوفى و درويش مسلك عناصر كو حكومت و سلطنت سے مربوط محافل اور اداروں سے نكال ديا گيا اور بدعات و خرافات كا قلع قمع كيا گيا _ گوشہ نشينى اور خانقاہوں كى رسم ختم كردى گئي _ نيز مذہبى بانفوذ شخصيات مثلا ميرزا ابوالقاسم جو كہ امام جمعہ تھے ،كى سفارش قبول كرنے سے پرہيز كيا گيا وہ (امير كبير) فقط اس بات پر تاكيد كرتے تھے كہ علماء دين دينى اور شرعى امور ميں قوت و طاقت سے فعاليت انجام ديں اور دين كو كمزور پڑنے كاموقع نہ ديں ليكن اس سياست كے ساتھ ساتھ وہ اس بات كا بھى خيال ركھتے تھے كہ استعمار كى فرقہ سازى اور انہيں نشر و اشاعت دينے والى سياست كى بھى روك تھام كريں، اس حوالے سے سب سے واضح مثال فتنہ بابيہ كے مقابلے ميںانكا علماء كى حمايت كرنا _ قضاوت كے امور ميں بھى انھوں نے شرعى اور عرفى قوانين كى تركيب اور امتزاج كيلئے اقدامات انجام دے اور اقليتوں كے حقوق اور انكى دينى آزادى كے حوالے سے بھى خاص توجہ كي(2)

-------------------

1) موسى نجفى و موسى فقيہ حقالي، تاريخ تحولات سياسى ايران، بررسى مؤلفہ ہاى دين ، حاكميت ، مدنيت و تكوين دولت _ ملت در گسترہ ہويت ملى ايران ، تہران، موسسہ مطالعات تاريخ معاصر ايران ،ص 119_118_

2) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 10، ذيل امير كبير ( على اكبر ولايتي) _

325

مجموعى طور پر اميركبير كى علماء كے كردار كو محدود كرنے والى مذہبى پاليسى نے اسلامى بيدارى كى تحريك كى اعانت كى _ انہوں نے دينى ميدانوں ميں آگاہى اور مختلف امور كے علمى اور عقلانى پہلو كو ترجيح دي، توہمات اور خرافات كا مقابلہ كيا دربارى ملاؤں كى فعاليت كو كم كيا، آئمہ جمعہ ،نظام العلماء و سلطان الذاكرين جيسے القاب والے علماء دين كے اختيارات كو كم كيا ان تمام امور كے ساتھ انہوں نے نادانستہ طور پر بتدريج اسلامى بيدارى كى تحريك كى حمايت كي _جبكہ ميرزا آقا خان نورى كى صدارت كے دور ميں معاملہ الٹ ہوگيا دربارى ملاؤں اور حكومت كى حامى اور باعتماد مذہبى قوتوں كو فعاليت كا زيادہ موقعہ ملا اور بعض علماء كى نظر مساعدت لينے كيلئے حكومتى وظيفہ بھى مقرر كيا گيا _ (1)

ميزرا حسين خان سپہسالار ÙƒÛ’ دور ميں بھى دينى اداروں كو كمزور كيا گيا اسكى مغرب زدہ اصلاحات اور غير ملكيوں كو امتيازى حيثيت دينا علماء كى مخالفت اور اعتراض كا باعث قرار پايا، سپہسالاركى اصلاحات لانے كى ايك روش يہ تھى كہ ناصر الدين شاہ كو فرنگيوں ÙƒÛ’ ملك كى طرف سفر كى ترغيب دى جائے تا كہ وہ مغربى ترقى كا مشاہدہ كرے  _ چونكہ سپہسالار كى مطلوبہ اصلاحات واضح طور پر مغربى زندگى ÙƒÛ’ قوانين اور اصولوں كى تقليد پر مبنى تھيں اور بہت سے امور ميں تو يہ اصلاحات اسلامى قوانين اور شريعت كى مخالف بھى تھيں اس ليے دينى حلقے اسكے مخالف ہوگئے  _



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 next