اسلامى بيداري



ماركوزے Ù†Û’ ہارك ہايمر اورآڈرنوكے مشن كو Ø¢Ú¯Û’ بڑھاتے ہوئے كوشش كى كہ ماركسزم اور فرائيڈازم ÙƒÛ’ امتزاج كى صورت ميں مغربى عقليت پر تنقيد كرے  _ انہوں Ù†Û’ رسالہ '' متاع اور تہذيب'' ميں يوں دليل دى ہے كہ جديد مغربى تہذيب Ù†Û’ انسان كى نفسانى طاقت كو اسكى ايك جہت ميں محصور كر ديا ہے اسى ليے مغربى انسان ايك جہت والے موجود ميں تبديل ہوگيا ہے ضرورى ہے كہ يہ ظالمانہ طوق اسكى گردن سے اتارا جائے ماركوزے، Ù†Û’ ماركس اور فرائيڈكے مفاہيم ÙƒÛ’ امتزاج اور'' اضافى جبر'' ÙƒÛ’ مفہوم كو استعمال ميں لاتے ہوئے فرائيڈ ÙƒÛ’ نفسانيات اور حياتيات پر قائم نظريہ كى بنياد كو Ø¢Ú‘Û’ ہاتھوں ليا اور ماركسزم ÙƒÛ’ معاشرتى اور اقتصادى تجزيوں كى بنياد پر تشكيل پانے والے جديد صنعتى معاشرہ پر سخت تنقيد كا اس ميں اضافہ كرديا_

ماركوزے اپنے ايك اور رسالہ '' يك بُعدى انسان'' ميں امريكى كلچر پر تنقيد كي _ وہ دلائل ديتا تھا كہ امريكا ايك ايسى جگہ ہے كہ جہاں ايك طرح كى آرام دہ، پرسكون اور معقول غلامى موجود ہے  _ ايسى جگہ ہے كہ جہاں ٹيكنالوجى مكمل فتح پاچكى ہے نيز جہاں فلاحى حكومت اور جنگجو حكومت ايك دوسرے كو Ú†Ú¾ÙŠÚ‘Û’ بغير اپنا كام

---------------------------

1 ) بابك احمدي، خاطرات ظلمت، تہران مركز 1379 _ ص 154 _ 153_

374

كر رہى ہيں ،امريكا ميں اقدار ايك جيسى ہوچكى ہيں جس كى وجہ سے وہاں كے شہريوں كے ليے انتخاب موجود نہيں ہے،يہ حالت اس وقت تك برقرار رہے گى جب تك كہ امريكى معاشرہ كے نچلے طبقہ سے ان حالات كے خلاف غصے كى لہر نہ اٹھے اور اس حالت كو تبديل نہ كردے (1) ماركوزے1960 ميں يہ نظريات پيش كركے عملاً امريكى اور يورپى ناراض طلباء كا پيشوا بن گيا_

جان پل سارٹر(1980 _ 1905 ) ماڈرن مغرب ÙƒÛ’ دانشوروں ÙƒÛ’ سلسلہ كى آخرى ÙƒÚ‘Ù‰ ہے جس Ù†Û’ اگزسٹنالزم (وجوديت پسندي) اور ماركسزم ÙƒÛ’ امتزاج سے كوشش كى كہ مغربى تہذيب پر تنقيد كرے  _ وہ اگزسٹنالزم كى انسانى ضمير كى آزادى كى حمايت كرنے كى بناء پرتعريف كرتا تھا اور ماركسزم كو بعنوان فلسفہ انقلاب قبول كرتا تھا _ اسكا ماركسزم كى طرف رجحان زيادہ تر ماركس كى جوانى كى تاليفات كى طرف ہے، اس Ù†Û’ كوشش كى كہ بعض مفاہيم مثلاً شيئيت، ضميت، سامان كى مانند ہونا، خود بيگانگى اور اگزسٹنالزم ÙƒÛ’ مضامين مثلاً انفرادى آزادى ØŒ ذاتى وجود اور ''ضمير انسان ''كو آپس ميں مخلوط كرے تا كہ مغربى انسان كى بے چارگى اور محروميوں كو بيان كرنے كيلئے نيا فلسفہ تشكيل دے سكے  _

اسكى طرف سے الجزاير ميں استعمار ÙƒÛ’ خلاف تحريكوں كى بے پناہ حمايت اور مئي 1968 ميں فرانس ميں انقلابى طلباء ÙƒÛ’ اعتراضات اور احتجاج ÙƒÛ’ ساتھ ہمدردى كا اظہار كرنا بتاتا ہے كہ وہ مغربى تہذيب ميں بڑھتے ہوئے تشدداور نفرت آميز رويوں پر تنقيد سے قلبى لگاؤ ركھتا تھا _ اگرچہ سارتر Ù†Û’ واضح طور پر مغرب ÙƒÛ’ زوال ÙƒÛ’ بارے ميں نظريہ نہيں ديا ليكن اسكے دو فلسفى رسالے بنام '' وجود اور عدم وجود'' اور '' منطقى عقل پر تنقيد'' ايسے ہيومنيزم كو بيان كرتے ہيں كہ جوسرمايہ دارى نظام اور قيود سے انفرادى آزادى كى بنياد پر تشكيل پايا ہے يہ خصوصيت اسكى داستانوں اورڈراموں ميں بھى ملاحظہ كى جاسكتى ہے  _ سارتر ÙƒÛ’ انفرادى آزادى ÙƒÛ’ نظريے Ù†Û’ دوسرى جنگ عظيم ÙƒÛ’ بعد 1950 ÙƒÛ’ عشرہ ÙƒÛ’ آغاز ميں جوانوں كى ايك مكمل نسل كو اپنا فريفتہ كيے ركھا (2)

-------------------------------

1)اسٹوارٹ ميرز، ہجرت انديشہ اجتماعي، ترجمہ عزت اللہ فولادوند ، تہران ، طرح نو، ص 210، 206_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 next