اسلامى بيداري



------------------------

1) حميد عنايت، سيرى در انديشہ سياسى در اسلام، ترجمہ بہاء الدين خرمشاہي، تہران، خوارزمى ص 34_

2) حشام شرابي، سابقہ حوالہ ،ص 55_

مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ عرب تمدن پسند رحجان كى مندرجہ ذيل خصوصيات ہيں :(1)

1: مغربى تہذيب و تمدن كے اصل ہونے اور اسكى بڑائي كوقبول كيا گيا ہے اور مسلمان يہ توانائي اور استعداد ركھتے ہيں كہ وہ مغربى فنون اور تمدن كو حاصل كرنے ميں كامياب ہوں كيونكہ مغربى علوم وہى اسلامى علوم ہى ہيں_

2: اس رحجان ÙƒÛ’ يہ دونوں برجستہ مفكر حكومتى عہدہ دار تھے مغربى تہذيب اور تكنيك ÙƒÛ’ حصول اور مسلمانوں كى ترقى كو حكومت كى ذمہ دارى شمار كرتے تھے ،اسى ليے انكى تحريك كو لوگوں كى سياسى تحريك شمار نہيں كيا جاسكتا اور نہ ہى عوام انكے سب سے پہلے مخاطب تھے  _

3: انكى روش اور انداز مصلحانہ ہے وہ يورپى اداروں اور شعبہ جات ÙƒÛ’ تجربوں كى بنياد پر اپنے معاشرے ÙƒÛ’ سياسى اور معاشرتى اداروں اور شعبہ جات كى اصلاح كرنا چاہتے تھے  _

4: يہ گروہ اسلام اور يورپى تمدن ميں بنيادى طور پر تضاد ÙƒÛ’ امكان ÙƒÛ’ بارے ميں غور نہيں كر رہا تھا، كيونكہ وہ اس بات پر يقين ركھتے تھے كہ بنيادى طور پر مغربى تہذيب كا سرچشمہ اسلام ہے اور يہ يورپى علوم وہى گذشتہ ادوار ميں اسلامى علوم كا ترجمہ ہيں ،لہذا انكا مقصد يہ تھا كہ يورپى تہذيب كو اپنے ہاں لانے كيلئے كوئي معيار بنايا جائے انكى نظر ÙƒÛ’ مطابق فقط غير دينى شعبہ ہائے زندگى كى بہترى كى ہى ضرورت ہے  _

5: يہ لوگ اسلامى امت كى وحدت ÙƒÛ’ افكار ÙƒÛ’ حامل نہ تھے انكى نگاہ مكمل طور پر اپنے وطن كى حد تك محدود ہے  _ يہاں تك كہ جب بھى عربى وطن ÙƒÛ’ بارے ميں گفتگو كرتے ہيں تو انكى مراد تمام عرب زبان ممالك نہيں ہيں بلكہ اصل ميں انكامقصود ايك ملك ہے مثلا طہطاوى كى عربى وطن سے مراد مصرہے  _

ب) مسلمان تمدن پسند رحجان: اس رحجان اور پہلے رحجان ميں كچھ مشتركہ امور ہيں حقيقت ميں اسلامى بيدارى كى آواز اٹھانے والوں كى دوسرى نسل كو مسلمان تمدن پسند كا نام ديا جاسكتا ہے كہ اس گروہ كى مشہور و



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 next