اسلامى بيداري



315

بہرحال رشيد رضا كے روايت پسند سياسى نظريات ميں قانون كى حكومت ،آزادى اوران شرائط پر تاكيد نہ تھى كہ جن پر طہطاوى اور سيد جمال نے اپنے جدت پسندرحجان كى بناپربہت زيادہ زور ديا تھا بلكہ وہ اس اسلامى نظام كو دائرہ عمل ميں لانے كے درپے تھے كہ جو صدر اسلام كے تخيل پسند عناصر پر استوار تھا جو ہر قسم كے دنياوى رحجانات، قومى اور مسلكى تعصب سے پاك تھے ( 1)

رشيد رضا ÙƒÛ’ نظريہ ÙƒÛ’ مطابق مغرب والوں Ù†Û’ ترقى ÙƒÛ’ مراحل كو Ø·Û’ كرنے كيلئے اسلامى اصولوں پر عمل كيا جبكہ خود مسلمانوں Ù†Û’ ان اصولوں كو چھوڑديا ہے  _ اگر چہ رشيد رضا Ù†Û’ اپنے روايت پسند رحجان كى طرف بڑھنے ميںمغرب والوں كو موردبحث قرار نہيں ديا بلكہ انكے افكار كى روش سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اہل مغرب كى نسبت معاندانہ انداز ركھتے تھے اور ان ميں مسلمان تمدن پسند اور عرب تمدن پسند رحجان والوں كى طرح كى روشن بينى كا فقدان تھا(2)_

حسن حنفى رشيد رضا كى فعاليت كا خلاصہ يوںبيان كرتے ہيںكہ رشيد رضا نے اصلاح پسند ، جدت پسند اور ترقى طلب افكار ميں ايك عمر گذارنے كے بعد طہطاوي، سيد جمال اور عبدہ جيسے رہنماؤں كى تاثير سے رہائي پاتے ہوئے محمد بن عبدالوہاب كے دامن ميں پناہ لي _ جس نے انہيں ابن قيم جو زيہ اور ابن تيميہ اور پھر احمد بن حنبل تك پہنچايا _ جسكى بناء پر رشيدرضا نے بجائے اسكے كہ جديد دور كے ماڈرن اصولوں كى طرف رحجان اور عصر حاضر كى تبديليوں كے ساتھ مطابقت كى بجائے كے مغرب سے جنگ و يلغار كو ترجيح دى _(3)

د) اسلامى اصول پسند رحجان:جاك برك جو اسلامى اصول پسند رحجان كے بارے ميں جو تجزيہ و تحليل كرتے ہيں اس ميںوہ بيسويں صدى ميں اسلامى ممالك كى طرف سے سائنسى ترقى كے حامل موجودہ

--------------------------------

1) مجيد خدورى ، سابقہ حوالہ ،ص 30، 9_ 78،محمد رشيد رضا، السنة و الشيعة ، قاہرة ، ص 59_54 و 79، حميد عنايت، سابقہ حوالہ ،ص 97_

2) Albert Hourani ، Arabic Thoagh in the Liberal Ages Oxford University Press، in 1962، p 239

3) حسن الحنفي، سابقہ حوالہ ،ص 42_

316



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 next