آسان مسائل " آیه الله العظمی سیستانی" (حصہ سوم)



سوال: جب کہ خریدار اور بیچنے والے کے درمیان قیمت کی ادائیگی پر مدت مقرر ہو جائے تو کیا یہ معاملہ قر ض سمجھا جائے گا،کیا اس قسم کا معاملہ صحیح ہے؟

جواب: معاملہ صحیح ہے جبکہ قیمت کی ادائیگی کی مدت معین ہو،اس میں کسی قسم کی کمی وزیادتی نہ ممکن ہو اور نہ بہت زیادہ مبہم ہو مثلاًدونوں اس بات پر متفق ہوجائیں کہ کھیتی کی کٹائی کے وقت قیمت ادا کی جائے گی تو یہ معاملہ باطل ہوجائے گا اس لئے کہ کھیتی کی کٹائی کا وقت معین نہیں ہے ۔

سوال: قرض سے بیچنے کے لئے اگر دونوں کا کسی مدت معینہ تک قیمت کی زیادتی پر اتفاق ہوجائے تو؟

جواب: یہ جائز نہیں ہے،اس لئے کہ یہ سود ہے اور سود حرام ہے،خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

”اَحَلَّ اللّٰہُ البَیعَ وَ حَرِّمَ الرِّبٰا “

”اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔“

سوال: مثلاًبیچنے والا او رخریدار دونوں سو(۱۰۰)کلو گیہوں کو ایک سو بیس(۱۲۰)کلو گیہوں کے سودے پر اتفاق کر لیتے ہیں تو کیا یہ سود شمار ہوگا؟۔

جواب: یہ سود ہے جو کہ حرام ہے ۔

سوال: کبھی دونوں(خریدار اور فروخت کرنے والا)سو کلوگیہوں کو سو کلو گیہوں اور اس کے ساتھ پچاس دینار زیادہ پر اتفاق کر لیتے ہیں تو کیا یہ پچاس دینار سود شمار ہوں گے؟

جواب: یہ بھی معاملہ اسی طرح سودہے جیسا کہ تم کو پہلے بتایا گیا ہے کہ وہ حرام ہے،ہاں اگر ناقص چیز کے ساتھ ایک عمدہ رومال بھی دیا جائے اور اس سے مقصد یہ ہو کہ ایک طرف جو گیہو ں ہیں وہ دو سری طرف رو مال کے مقابلہ میں ہیں،اور پچاس دینار جو اس طرف ہیں وہ ان گیہوں کے مقابلہ میں ہیں کہ جو پہلی طرف ہیں، پس اس طرح یہ بیع مطلقاً صحیح ہو جائیگی اور اس سے حرام ربا لازم نہیں آئیگا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 next