بيدارى عالم اسلام كى نشا ة ثانيہ



1) احمد ساعى ، سابقہ حوالہ ، ص 150_ 139_

2)سابقہ حوالہ _

283

بين الاقوامى مالياتى ادارے

اقوام متحدہ سے وابستہ بعض ادارے كہ جن ميں سے عالمى بينك اور آئي ايم ايف كى طرف اشارہ كياجاسكتا ہے يہ سب دوسرى جنگ عظےم ÙƒÛ’ بعد بين الاقوامى سطح پر مالى امور كو منظم كرنے اور مالى بحرانوں كو روكنے كيلئے بنائے گئے تھے ،مثلاً 1930 Ø¡ ÙƒÛ’ عشرے كا مالى بحران قابل ذكر ہے كہ جسميں عالمى سطح پر نرخوں كى تبديلى اور رقابت ميں كرنسى كى تقابلى قيمت گھٹنے سے عالمى اقتصاد كو شديد جھٹكے Ù„Ú¯Û’  _

اگر چہ يہ ادارے دنيا ÙƒÛ’ اكثر ممالك سے تعلق ركھتے ہيں ليكن طاقتور اور سابق استعمارى ممالك كا ان اداروں ÙƒÛ’ بنيادى فيصلوں پر غلبہ مكمل طور پر واضح ہے  _ مثلاً آئي _ ايم_ ايف ميں امريكاكا پانچواں حصہ ہے كيونكہ ہر ملك كى رائے كى اہميت اس ÙƒÛ’ حصہ كى مقدار سے ربط ركھتى ہے  _ لہذا امريكا كى رائے كسى فيصلہ ميں بنيادى كردار اد ا كرتى ہے  _ (1)

چونكہ ترقى پذير ممالك اپنى مشكلات محض براہ راست غير ملكى سرمايہ كارى اور ان كثير القومى كمپنيوں كى فعاليت كى مدد سے حل نہيں كرسكتے اس لئے وہ ديگر ممالك سے قرضہ كے طالب ہوتے ہيں _

قرضہ حاصل كرنے ÙƒÛ’ مختلف طريقوں ميں سے ايك طريقہ يہى ہے كہ ان بين الاقوامى مالى اداروں مثلاً آئي _ ايم _ ايف اور عالمى بينك كى مدد حاصل كى جائے  _ ليكن اس قسم ÙƒÛ’ قرضہ جات حاصل كرنے سے ضرورى نہيںہے كہ قرضہ لينے والے ملك ÙƒÛ’ اقتصاد پر مثبت اثر Ù¾Ú‘Û’ بلكہ اس ÙƒÛ’ برعكس يہ قرضے مختلف اقتصادى بحرانوں ÙƒÛ’ موجب بھى بنتے ہيں جيسا كہ ستر كى دھائي ميں تيسرى دنيا ÙƒÛ’ ممالك كا مقروض ہونے كا بحران ہے  _

اسى طرح يہ قرضہ جات كا حصول ان بين الاقوامى اداروں كى پاليسيوں كو قبول كرنے سے مشروط ہے اور يہ پاليسياں ان ترقى يافتہ (سابقہ استعمار ى ) ممالك كے مفادات كو پورا كرتى ہيں _

------------------------

1) جك يلنووآلٹون روى ،سابقہ حوالہ ، ص 219_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next