بيدارى عالم اسلام كى نشا ة ثانيہ



3) ھامر پور گشتال ، تاريخ امپراتورى عثمانى ص 19_ 816_

4) خورشاہ _سابقہ حوالہ ص 86_ 184 اسكندر پلك منشى ، سابقہ حوالہ ج 1 ص 9_128_

5) عبدالرضا ہوشنگ مہدوي، تاريخ روابط خارجى ايران از ابتداى دوران صفويہ تاپايان جنگ دوم جہاني، ص 33_

6) راجرسيوري، سابقہ حوالہ ص 73_70_

7) سابقہ حوالہ ص 6_83 _

كرليا اور بادشاہ نے سال 1049 قمرى ميں عثمانيوں كے ساتھ معاہدہ قصر شيرين طے كيا جس كى روسے بصرہ اور مغربى كردستان كا كچھ حصہ عثمانيوں كو ديا گيا جبكہ مشرقى آذربائيجان، رواندوز، آرمينيا اور جارجيا ايران كو ديے گئے، يہ معاہدہ بہت اہميت كا حامل تھا كہ كيونكہ اس معاہدہ كى روسے متنازعہ علاقوں كا مسئلہ حل ہوا اور ايك صدى تك دونوںحكومتوں ميں صلح برقرار رہى _ (1)

آخرى نكتہ يہ ہے كہ عثمانيوں ÙƒÛ’ ساتھ ايران ÙƒÛ’ روابط ميں مختلف عوامل كردار ادا كرتے تھے  _ مثلاً مذہب، سياسى عوامل سرحدى علاقوں ÙƒÛ’ قبائل كى حركات، سرحدوں كا متعين نہ ہونا اور عثمانيوں كى توسيع پسندي_

مغلوں كے ساتھ تعلقات ميں ديگر ہمسايوں كى نسبت بہت كم معاملہ جنگ وجدال تك پہنچا يہاں صرف اہم مسئلہ قندھار كا تھا _مغلول كے ساتھ دوستانہ روابط اكثر صفوى بادشاہوں كے زمانہ ميں رہے ہيں دونوں حكومتوں نے باہمى روابط ميں امن اورصلح قائم ركھنے كو ترجيح دى _ (2)

(ب) يورپى حكومتوں كے ساتھ روابط : سال 912 قمرى كے بعد سے خليج فارس ميں پرتگاليوں كے نفوذ كى بناء پر شاہ اسماعيل نے كوئي چارہ نہ ديكھتے ہوئے انكے اقتدار كو قبول كيا اصل ميں وہ عثمانيوں كے خلاف ان سے مدد لينا چاہتا تھا _ پرتگاليوں سے قرار داد ميں يہ درج تھا كہ وہ ايرانى لوگوں كو بارودى اسلحہ كے استعمال كا طريقہ سكھائيں _ شاہ تہماسب كى عثمانيوں كے ساتھ بيس سالہ جنگى دور ميں پرتگاليوں نے كچھ مقدار ميں بندوقيں اور جديد اسلحہ ايرانيوں كو ديا _ (3) اس دور كے بعد عيسائي مبلغين نے دوستانہ روابط برقرار كرنے كى كوششيں شروع كيں _

سال سنہ 1006 قمرى ميں دو انگريز آنتھونى شرلى اور رابرٹ شرلى شاہ عباس ÙƒÛ’ دربار ميں حاضر ہوئے  _



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next