بيدارى عالم اسلام كى نشا ة ثانيہ



آيا واقعاً يہ موضوع ايك علمى اور حقيقت پر مبنى موضوع ہے جيسا كہ بہت سے مستشرقين كا دعوى بھى ہے يا جيسا كہ مغرب پر تنقيد كرنے والے اہل نقد ونظر كا نظريہ ہے كہ يہ مسئلہ محض طاقت اور طاقت كو دوسروں پر مسلط كرنے كا بہانہ ہے  _ يعنى استعمار گر اہل مغرب كى قوت Ùˆ طاقت اورتسلط كى توجيہ كا ايك وسيلہ ہے  _ مشرق صرف يورپ سے متصل ايك ہمسايہ نہيں ہے بلكہ قدرتى دولت سے مالامال يورپ ÙƒÛ’ سب سے بڑے مستعمرات ميں سے ہے اور يورپ كى تہذيب كا سرچشمہ بھى ہے نيز تہذيب Ùˆ تمدن ميں يورپ كا رقيب بھي

--------------------------

1) سابقہ حوالہ ص 112_ 105_

287

ہے  _ مشرق شناسى كا مضمون بھى اسى موضوع كى ثقافتى اور نظرياتى تعريف كو بيان كرتا ہے  _ اس طرح مشرق شناسى گفتگو كا ايك غالب مغربى موضوع ہے كہ جو خاص اداروں ØŒ نصاب ØŒ يا مطالعات اور استعمارى بيوركريسى پر مشتمل ہے (1)

مشرق شناسى كى معروف ترين تعريف اسكى علمى تعريف ہے  _ اس ÙƒÛ’ مطابق جو بھى اپنى تدريس ØŒ تصنيف اور تحقيق كا موضوع مشرق كو قرار دے خواہ اسكا تعلق نفسيات، معاشرت ØŒ تاريخ ØŒ زبان كسى بھى مضمون سے تعلق ہو وہ مشرق شناس ہے جو ÙƒÚ†Ú¾ بھى انجام دے يہى مشرق شناسى ہے ليكن يہ كالجوں اور يونيورسٹيوں كا مضمون ØŒ مشرق شناسى ÙƒÛ’ ايك عام معنى سے بھى وابستہ ہے وہ يہ كہ مشرق شناسى دراصل فكر ونظر كى ايك روش ہے كہ جو مشرق اور مغرب كى وجود شناسى اور علم شناسى ÙƒÛ’ فرق كى بنياد پر استوار ہے  _ (2)

بطور اختصار مشرق شناسى كو بھى مشرق پر قبضہ اور اسے اپنا مستعمرہ بنانے كيلئے مغرب كى ايجاد شدہ ايك روش كے طور پر محور تجزيہ قرار دياجاسكتا ہے چونكہ جب تك مشرق شناسى ايك غالب سياسى موضوع كى مانندمورد تجزيہ قرار نہ پائے گى كبھى بھى اسكى منظم اور مرتب خصوصيات درك نہيں كى جاسكتيں كہ جن كے ذريعے مغرب اور مغربى كلچرنے مشرق كى سياسى ، معاشرتى ، فكرى اور علمى محافل اور ميدانوں سے آگاہى حاصل كى بلكہ اسے تشكيل ديا اور اسے نئے سرے سے ايك ايسا موضوع بنايا جس پر تحقيق كى جاسكتى ہو_ (3)

مشرق شناسى پر مطالعہ كب شروع ہواا س موضوع پر محققين باہم اختلاف نظر ركھتے ہيں _ بعض دانشور حضرات مشرق شناسى كے مطالعات كى تاريخ كو بہت قديم سمجھتے ہيںانكے نظر كے مطابق اسكو شرو ع كرنے والا ہيروڈٹ تھا وہ مشرقى اقوام كے بارے ميں مطالعہ كيا كرتا تھا _ (4)

--------------------------

1) ايڈورڈ سعيد ، الاسشراق ، ترجمہ كمال ابواديب ، بيروت 1981 ، ص 37_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next