بيدارى عالم اسلام كى نشا ة ثانيہ



2) سابقہ حوالہ ص 38_

3) سابقہ حوالہ ص 39_

4) احمد سمايلو ، فتش،فلسفہ الاستشراق داثر ھا فى الادب العربى المعاصر ، قاہرہ ، ص 71 _70_

جبكہ بعض ديگر كہ جن ميں سے ايڈورڈ سعيد قابل ذكر ہيں جس نے متعلقہ اداروں پر تحقيق كے بعد شرق شناسى كا آغاز 1312 ء ميں وين كے كليسا كى كو نسل كے پروگرام كے تحت پيرس ، آكسفورڈ، اوينين اور سلامانكا كى يونيورسٹيوں ميں عربي، يونانى ، عبرى اور سريانى زبانوں كے ذريعے مشرق شناسى كے مطالعہ پر كام كے شروع ہونے كو قرار ديا _ (1)

بعض ديگر دانشور كلمہ ''مشرق شناسى '' اور اسكے مشتقات كا علمى محافل ميں ظہور كے زمانہ كو اس علم كى تحقيقات كے شروع كا زمانہ سمجھتے ہيں ،كيونكہ انگلستان ميں لفظ ''مستشرق'' سنہ 1779 ء اور فرانس ميں 1799ء ميں رائج ہوا اور 1838ء ميں پہلى بار فرانس كى يونيورسٹى ڈكشنرى ميں مشرق شناسى كا مفہوم ومعنى داخل ہوا _ (2)

ليكن درحقيقت يورپ ميں مشرق شناسى ÙƒÛ’ بارے ميں مطالعات ÙƒÛ’ عروج كا دور انيسويں صدى اور بيسويں صدى ÙƒÛ’ اوائل كا زمانہ ہے  _ اگرچہ خود مشرق شناسى كى تاريخ اس سے كہيں طولانى ہے ØŒ مجموعى طور پر مشرق شناسى ÙƒÛ’ مطالعات كا دومراحل ميں تجزيہ كيا جاسكتا ہے اور ان دو مراحل ميں سے ہر مرحلہ ميں مشرق شناسى ايك خاص صورت ميں سامنے آتى ہے:

1) _ مشرق شناسى كے موضوعات پر مطالعات كا نقطہ آغاز يورپى كليسا كے ساتھ تعلق ركھتا ہے اور اس موضوع پر مطالعات كا مقصد يہ تھا كہ اسلامى نظريہ اور اسكى برترى سے پيدا ہونے والے خطرات سے عيسائي عقائد كا دفاع كرنا تھا اس لحاظ سے اس دور ميں مشرق شناسى ايك دفاعى صورت ميں تھى اور اپنے اندرونى مسائل پر توجہ ركھے ہوئے تھى اس سے انكا يہ ہدف تھا كہ وہ اسلام اور نظريہ اسلام كا حقيقى چہرہ بگاڑ كر اور اسے غير مناسب اور ناپسنديدہ صورت ميں پيش كريں تاكہ وہ يورپى شخص كو اسلامى عقائد سے دور كرسكيں اور اس دور پر غالب عيسائي عقائد ونظريات كا دفاع كرسكيں _ (3)

------------------------

1) ايڈوڈ سعيد ،سابقہ حوالہ ،ص80_

2) نصر محمد عارف ،التنمية السياسية المعاصرة ، ہيرندن فير جينسا ، امريكہ ، ص115_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next