حضرات معصومین علیهم السلام کے منتخب اخلاق کے نمونے (1)



کعب بن زُھیر ایک بت پرست شخص تھا اور فتح مکہ تک اسی جاھلیت کے طریقہ پر ثابت قدم تھا اور اس کا سب سے برا اور ناروا عمل یہ تھا کہ اپنے اشعار میں رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی نقل کرتا اور آپ کے بارے میں بدکلامی کیا کرتا تھا ۔

رسول اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) کے سلسلہ میں اس کی بدکلامی اور برائیاں اس حد تک پہنچی ھوئی تھی کہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے فتح مکہ میںاس کا اور چند دیگر ہٹ دھرم اور دین و پیغمبر کے سلسلہ میں خطرناک ظلم وستم کرنے والے مشرکین کا خون مباح کردیا تھا اور آپ نے مسلمانوں کو حکم دیدیا تھا کہ ان کو قتل کردیں۔

کعب بن زھیر کو جب یہ معلوم ھوا کہ رسول اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) نے اس کا خون مباح کردیا ھے اور وہ جہاں بھی جائے گا مسلمانوں کی شمشیر سے محفوظ نھیں رھے گا تو اس نے اپنی شاعری کی طاقت کی بنا پر پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی مدحت میں ایک قصیدہ کہا اور مدینہ کی طرف روانہ ھوا۔

اور جب وہ مدینہ پہنچ گیا تو سب سے پھلے جناب ابوبکر کو اپنی شناخت کرائی اور اس سے تمنا ظاہر کی کہ اس کو پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں لے جائے، شاید رحمت للعالمین پیغمبر اس کو بخش دیں۔

حضرت ابوبکر نے اس کی درخواست قبول کرلی ، چنانچہ کعب اپنے چہرے کو اپنے عمامہ سے چھپائے ھوئے جارہا تھا تاکہ کوئی اس کو پہچان نہ لے اور ایمان لانے سے پھلے ھی اس کو قتل کردے، چنانچہ جب وہ رسول اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ھوا تو اس نے کہا: یا رسول الله! ایک عرب شخص ھوں اور میں اسلام لانا چاہتا ھوں اور آپ کی اسی عالم میں بیعت کرنا چاہتا ھوں، چنانچہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے اپنا دست مبارک بڑھایا اور کعب نے اسلام قبول کرتے ھوئے بیعت کی اور کہا:

”بِاٴَبِي اٴنْتَ وَاُمِّي یَا رَسُولَ اللّٰہِ، ھَذا مَقَامُ العَائذِ بِکَ، اٴَنَا کَعَبُ بنُ زُہَیْرِ“۔

” میرے ماں باپ آپ پر قربان ھوں ، یا رسول الله! یہ ھے آپ کی پناہ میں آنے والا کی عظمت، میں کعب بن زھیر ھوں“۔

اور پھر فوراً ھی اس نے پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) کی مدحت میں کہا ھوا وہ قصیدہ پڑھا، اور جب وہ قصیدہ تمام ھوا تو آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) نے اس کو ایک یمنی چادر انعام کے طور پر عطا کی اور اس کے اسلام کو قبول کرلیا اور اس کو بخش دیا۔[21]

منافقوں کے سردار کے ساتھ تعجب آور برتاؤ

عبد الله بن اُبَی جو مدینہ کے منافقین کا سردار تھا خود وہ بھی اور اس کے ساتھی بھی پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی نسبت کسی بھی آزار و اذیت سے باز نھیں آتے تھے، اور ھمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت اور دشمنوں کے لئے جاسوسی کیا کرتے تھے اور اپنے نفاق پر اس قدر ہٹ دھرمی کیا کرتے تھے کہ کئی مرتبہ ان کے بُرے حالات اور رحمت الٰھی سے محروم ھونے اور قیامت کے عذاب کے سلسلہ میں قرآنی آیات نازل ھوچکی تھیںلیکن وہ بے خبر جاھل و غفلت میں غرق لوگ اپنے نفاق سے باز نھیں آتے تھے اور توبہ کرنے کے لئے تیار نھیں تھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 next