حضرات معصومین علیهم السلام کے منتخب اخلاق کے نمونے (1)



”وہ مرد جنھیں کارو بار یا دیگر خرید و فروخت ذکر خدا ، قیام نماز اور ادائے زکوٰة سے غافل نھیں کر سکتی یہ اس دن سے ڈرتے ھیں جس دن کے ھول سے دل اور نگاھیں سب الٹ جائیں گی۔ تاکہ خدا انھیں ان کے بہترین عمل کی جزادے سکے اور اپنے فضل سے مزید اضافہ کر سکے اور خدا جسے چاہتا ھے رزق بے حساب عطا کرتا ھے۔“

کی شان نزول میںبیان کرتے ھیں:

(اس آیت کے ) نازل ھونے کی وجہ یہ تھی کہ ایک روز پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے تین سو دینار جو آپ کو ہدیہ کے طور پر ملے تھے، حضرت علی علیہ السلام کو عطا کئے، حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں نے وہ دینارلئے اور کہا: خدا کی قسم میں ان سب دیناروں کو راہ خدا میں اس طرح صدقہ دوں گا کہ خداوندعالم قبول کرلے ۔

جب میں نے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کے ساتھ نماز عشا پڑھی تو میں سو دینار اپنے ہاتھوں میں لئے اور مسجد سے باہر آیا، ایک عورت کو دیکھا تو سو دینار اس کو دیدئے، دوسرے روز لوگ کہتے ھوئے نظر آئے: علی (علیہ السلام) نے کل رات ایک بدکار عورت کو صدقہ دیا ھے!

مجھے بہت غم ھوا، اس روز بھی نماز عشاء ادا کرنے کے بعد سو دینار ہاتھ میں لئے اور مسجد سے باہر آیا اور کہا: خدا کی قسم میں آج رات ایسا صدقہ دوں گا کہ خداوندعالم مجھ سے قبول کرے گا، چنانچہ میں نے ایک مرد کو دیکھا تو اس کو سو دینار دیدئے، صبح ھوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا: علی (علیہ السلام) نے گزشتہ رات ایک چور کو سو دینار صدقہ دیا ھے۔

پھر مجھ پر بہت زیادہ غم طاری ھوا لیکن میں نے اپنے دل میں کہا: میں آج کی رات ایسا صدقہ دوں گا جو خداوندعالم کی بارگاہ میں مقبول ھو، میں نے نماز عشاء پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کے ساتھ پڑھی اور مسجد سے باہر نکلا، اور میں سو دینار لئے ھوئے تھا، چنانچہ میں نے ایک شخص کو دیکھا تو وہ دینار اس کو دیدئے، صبح ھوئی تو اھل مدینہ نے کہنا شروع کیا کہ علی (علیہ السلام) نے کل رات ایک امیر انسان کو سو دینار صدقہ دیا ھے، اور پھر مجھ پر غم طاری ھوگیا۔

چنانچہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ھوا اور اپنا پورا واقعہ بیان کیا، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا: یا علی! یہ جناب جبرئیل ھیں جو آپ سے کہتے ھیں: خداوندعالم نے تمہارے صدقوں کو قبول کرلیا ھے اور آپ کے کام کو پاک کردیا ھے۔

پھلی رات میں تم نے جو صدقہ دیا وہ ایک فاسد عورت کے ہاتھ میں گیا کہ جب وہ گھر پہنچی تو اس نے خدا کی بارگاہ میں توبہ کرلی اور ان سو دینار کو اپنے زندگی کا سرمایہ قرار دیا اور شادی کرنا چاہتی ھے کہ ان سو دینار سے شادی کرے گی۔

دوسری رات کا صدقہ ایک چور کے ہاتھ میں گیا لیکن جب وہ اپنے گھر پہنچا تو اس نے (بھی) خدا کی بارگاہ میں توبہ کی اور ان سو دینار کو تجارت کے لئے اپنا سرمایہ قرار دیا۔

تیسری رات کا صدقہ ایک مالدار انسان Ú©Ùˆ دیاکہ جس Ù†Û’ مدتوں سے اپنے مال Ú©ÛŒ زکوٰة ادا نھیں Ú©ÛŒ تھی کہ جس Ú©Û’ بعد خانہ خدا گیا اور اپنی سرزنش اور ملامت Ú©ÛŒ اور کہا: اے نفس ! تو کتنا بخیل Ú¾Û’! یہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) ھیں جو ناداری اور مفلسی میں بھی سو دینار صدقہ دیتے ھیں اور میں ایسا مالدار Ú¾ÙˆÚº کہ جس پر برسوں سے زکوٰة واجب Ú¾Û’ لیکن میں Ù†Û’ ادا نھیں Ú©ÛŒ Ú¾Û’ØŒ چنانچہ اس Ù†Û’ اپنے تمام مال Ú©ÛŒ زکوٰة کا حساب کیا اور اس Ú©Ùˆ الگ رکھ دیا Ú¾Û’  اسی وجہ سے خداوندعالم Ù†Û’ ان آیات Ú©Ùˆ آپ Ú©ÛŒ شان میں نازل Ú©ÛŒ ھیں۔[64]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 next