حضرات معصومین علیهم السلام کے منتخب اخلاق کے نمونے (1)



حاتم طائی عرب کے بزرگوں میں سے تھا اور بہت زیادہ سخی اور لوگوں پر مہربان تھا۔وہ ہر روز ایک اونٹ کا گوشت پکواتا تھا تاکہ کوئی بھی کھیں سے آکر اس کے سخاوت مند دسترخوان سے کھانا کھائے، اور اس کام کو خلوص اور دل و جان سے انجام دیتا تھا، حاتم، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کے پُر برکت زمانہ سے پھلے ھی دنیا سے اٹھ گیاتھا۔

اس کے بعد اس کے قبیلہ کی سرداری اس کے بیٹے ”عدی“ کو پہنچی، عدی بھی سخاوت و بخشش میں اپنے باپ کا آئینہ تھا۔

کہا جاتا ھے کہ ایک روز کسی شخص نے اس سے سو درھم کی درخواست کی، اس نے کہا: خدا کی قسم! یہ مقدار تو بہت کم ھے اور جب تک مجھ سے زیادہ طلب نہ کرو گے میں نھیں دوں گا!

اسی طرح ایک شاعر نے اس سے کہا: میں نے تمہاری مدحت کی ھے، اس نے کہا: ذرا ٹھہر، جو تم چاہتے ھو وہ تمھیں دیدوں، اس کے بعد مدح کرنا۔

ہجرت کا نواں سال تھا، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی سرپرستی میں ایک گروہ کو قبیلہ ”طی“ کی طرف بھیجا تاکہ ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں، انھوں نے تحقیق کئے بغیر کہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کا بھیجا ھوا گروہ کس مقصد کے لئے آیا ھے؛ جنگ شروع کردی اور وہ جنگ میں ہار گئے۔

چنانچہ اس قبیلہ کے بہت سے لوگ جنگی غنائم کے ساتھ اسیر کر لئے گئے، عدی جس کا نصرانی دین تھا، شام کی طرف بھاگ نکلا لیکن اس کی بہن بنام ”سفّانہ“ اسیر ھوگئی۔

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) اسیروں کے مسائل طے کرنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے، چنانچہ حاتم کی لڑکی (آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) کو دیکھ کر) کھڑی ھوگئی اور کہا: یا رسول الله! میرا باپ اس دنیا سے اٹھ چکا ھے، میرا بھائی میرا سرپرست تھا وہ بھی شام کی طرف بھاگ نکلا ھے، لہٰذا مجھے آزاد فرماکر احسان کریں، چنانچہ آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) نے حکم دیا کہ اس کو بہترین کپڑے دئے جائیں ، اور اس کو احترام کے ساتھ شام بھیج دیا گیا۔

عدی نے اپنی بہن کے ساتھ اس احترام و عزت کو دیکھ کر بہت تعجب کیا، اور اس سے تفصیل معلوم کی، اس کی بہن نے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کے رحم و کرم کے سلوک کو بیان کیا، عدی نے سوال کیا: تو پھر ھمیں کیا کرنا چاہئے؟ اس نے جواب دیا: بہتر تو یہ ھے کہ تم آنحضرت (ﷺ) کے پاس جاؤ، اگر وہ پیغمبر ھیں تو ان پر ایمان لانا ھمارے لئے باعث افتخار ھے اور اگر وہ بادشاہ ھیں تو تمھیں عزت ملے گی۔

عدی بہت تیزی کے ساتھ مدینہ پہنچے اور مدینہ مسجد میں پہنچ کر پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں خود کو پیش کیا، چنانچہ آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) نے اس کو اپنے بیت الشرف چلنے کی دعوت دی۔

راستہ میں پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کے پاس ایک بُڑھیا آئی اور اپنی حاجت بیان کیا اور طولانی گفتگو کے ذریعہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کو کافی دیر تک روکے رکھا، پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے بھی بہت ھی صبر و حوصلہ سے اس کی تمام باتوں کو سنا! عدی نے اپنے دل میں کہا: یہ تو بادشاھوں کا طریقہ کار نھیں ھے کہ اس طرح حاجت مندوں کی باتوں کو سنیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 next