حضرات معصومین علیهم السلام کے منتخب اخلاق کے نمونے (1)



توجہ رھے کہ پانی میں مری ھوئی مچھلی کا فروخت کرنا ممنوع ھے!

اس کے بعد ”دار فرات“ نامی سوتی بازار میں داخل ھوئے اور سوتی کپڑے والے ایک بوڑھے کی دکان پر پہنچے اور اس سے کہا: میں ایک تین درھم کا پیراہن خریدنا چاہتا ھوں، لیکن چونکہ اس بوڑھے نے امام (علیہ السلام) کو پہچان لیا، لہٰذا آپ کو دینے سے انکار کردیا، چنانچہ آپ وہاں سے اٹھے اور ایک دوسری دکان پر پہنچے لیکن اس نے بھی امام (علیہ السلام کو پہچان لیا لہٰذا اس نے بھی دینے سے انکار کردیا، اس کے بعد آپ ایک نوجوان کے پاس پہنچے اور اس سے تین درھم میں ایک پیراہن خریدا اور وھیں زیب تن کیا اور پہنتے وقت خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کی:

”اَلحَمدُ للهِ الّذِی رَزَقَنِي مِنَ الرِّیٰاشِ مٰا اٴَتَجَمَّلُ بِہِ فِی النَّاسِ و اٴُوارِي بِہِ عَورَتِي“۔

”خدا کا شکر ھے جس نے مجھے لباس فاخرہ عطا کیا جس کے ذریعہ لوگوں کے درمیان خود کو زینت دوں اور اپنے بدن کو ڈھانپ سکوں“۔

اس وقت لوگوں نے سوال کیا: یا امیر الموٴمنین! یہ چیز آپ نے اپنی طرف سے فرمائی ھے یا رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) سے سنی ھے؟ آپ نے فرمایا: اس چیز (یعنی اس دعا) کو میں نے رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) سے سنا ھے کہ لباس پہنتے وقت یہ دعا کرتے تھے۔

(کچھ دیر بعد)اس نوجوان کا باپ آیا جس سے پیراہن خریدا تھا اور اس سے کہا کہ تمہارے بیٹے نے امیر الموٴمنین کو تین درھم میں پیراہن فروخت کیا ھے، باپ نے بیٹے سے مخاطب ھوکر کہا: کیوں تم نے دو درھم سے زیادہ لئے ھیں؟ چنانچہ اس کے باپ نے اس سے ایک درھم لیا اور حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا آپ اس وقت ”دروازہ رُحبہ“ پر مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے ھوئے تھے، (اس نے امام علیہ السلام کی طرف مخاطب ھوکر) کہا:یا امیر الموٴمنین ! یہ ایک درھم آپ کا ھے لیجئے، (امام علیہ السلام) نے فرمایا: یہ درھم کیسا ھے؟ اس نے کہا: آپ نے جولباس خریدا ھے اس کی قیمت دو درھم تھی، (امام علیہ السلام نے) فرمایا: اس نے میری مرضی سے فروخت کیا ھے اور میں نے بھی اپنی مرضی سے خریدا ھے۔[70]

تعجب خیز عطیہ

ہجرت کے آٹھویں سال جب رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کے دست مبارک کے ذریعہ مکہ فتح ھوا۔ حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی بت شکنی کے ذریعہ خانہ کعبہ کوبتوں کی نجاست سے پاک کیا اور طہارت حاصل ھوئی۔ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے شہر کے بتوں اور بت خانوں کی نابودی کے لئے ارشادی اور تبلیغی گروہ کو روانہ کیا تاکہ لوگوں کو خداوندعالم کی طرف دعوت دیں، لیکن ان کے ساتھ اعلان جنگ نہ کیا،ان میں سے خالد بن ولید بھی تھاجس کو دعوت دینے والے کے عنوان سے روانہ کیا نہ کہ جنگجو کے عنوان سے، (وہ روانہ ھوئے) یہاں تک کہ بنی جذیمہ بنی عامر کے ”الغُمَیصا“ نامی کنویں تک پہنچے ، جذیمہ، جاھلیت میں، عوف بن عوف ، عبد الرحمن وفا کا باپ تھا جس نے خالد کے چچا مغیرہ کو قتل کردیا تھا اور ان کا سامان لوٹ لیا تھا۔

جب خالد اس کنویں کے پاس آیا تو بنی جذیمہ اسلحے اٹھائے ھوئے خالد کے پاس آئے، خالد نے کہا: اسلحے زمین پر رکھ دو کیونکہ لوگ مسلمان ھوگئے ھیں، اور اس وقت خالد نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھوں کو باندھ دیا جائے اور پھر ان میں سے جس کو بھی چاہا قتل کردیا۔

جب یہ خبر پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) تک پہنچی تو آپ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا: خدایا! میں خالد کے کارنامہ سے بیزار ھوں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 next