حضرات معصومین علیهم السلام کے منتخب اخلاق کے نمونے (1)



جس وقت حضرت علی علیہ السلام بصرہ کی جنگ کے شعلوں کوبھڑکانے والوں کے حملہ کو روکنے کے لئے ”ذی قار“ پہنچے، عائشہ نے حفصہ بنت عمر کے نام ایک خط لکھا جس میں حضرت علی علیہ السلام کی توھین کی گئی ، (جیسا کہ خط کی تحریر یہ ھے): ”علی ذی قار پہنچ گئے ھیں اور بہت زیادہ خوف و وحشت میں مبتلا ھیں اور ھمارے لشکر کی کثرت سے بھی آگاہ ھیں اور وہ سرخ و سفید گھوڑے کی طرح ھیں کہ اگر آگے بڑھے تو گرفتار ھوکر اسیر ھوجائیں اور اگر باقی رھیں تو قتل ھوجائیں“۔

جس وقت یہ خط حفصہ کو ملا اس نے چند کنیزوں کو اکھٹا کیا اور ڈفلی بجاتے اور ناچتے ھوئے اشعار پڑھنے لگی اور حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی توھین کرنے میں مشغول ھوگئی جس کو دشمنان اسلام کی عورتیں اور لڑکیاں دیکھنے میں مشغول تھیں۔

ام کلثوم بنت امیر الموٴمنین علیہ السلام کو اس واقعہ کی خبر ھوئی تو وہاں پہنچیں اور کہا: اگر آج تم نے میرے والد کے خلاف قیام کیا ھے تو ایک روز ان کے بھائیحضرت رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) کو بھی تکلیف پہنچا چکی ھو! حفصہ شرما کر الگ ھوگئی اور اس شرم آور پروگرام کو ختم کردیا۔[79]

سرانجام حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی نسبت عائشہ کی دشمنی میں اضافہ ھوتا گیا اور اپنے ما تحت لوگوں کو برے برے کاموں کا حکم دیتی رہتی تھی۔

حضرت امیر الموٴمنین (علیہ السلام) کے صوبہ دار عثمان بن حنیف کو سخت ترین شکنجہ کیا اور ان کے سر اورداڑھی کے بالوں کو دردناک طریقہ سے نوچ ڈالا گیا! اور حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے بیت المال کی حفاظت کرنے والے سپاھیوں کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔[80]

حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے جنگ کے بھڑکتے ھوئے شعلوں کو خاموش کرکے جمل کے لشکر کو بہت سخت شکست دی اور عائشہ کی شیطانی تمناؤں پر پانی پھیر دیا، لیکن حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے اس کو اپنی پناہ میں محفوظ کر لیا تاکہ کسی طرح کا کوئی نقصان نہ ھو، اور عبد القیس کی چالیس عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے سروں پر عمامہ باندھ کر اور ہاتھوں میں تلوار لئے ھوئے اس کو مدینہ واپس پہنچا دیں، اور محمد بن ابوبکر کو حکم دیا کہ اپنی بہن کے ساتھ ساتھ جاؤ۔

لیکن عائشہ راستہ بھر امیر الموٴمنین علیہ السلام کی برائیاں کرتی جار ھی تھی اور کہتی تھی: علی نے مجھے اپنے لشکر کے اختیار میں قرار دیا ھے! لیکن جب وہ مدینہ پہنچ گئیں اور عائشہ کے کے گھر پہنچیں تو انھوں نے اپنے عماموں کو اتار دیا اور یہ دکھا دیا کہ ھم عورتیں ھیں اور یہ ثابت کیا کہ علی علیہ السلام نے عائشہ کے ساتھ کس طرح شرافت و کرامت کا سلو ک کیا ھے اور اس کی تمام برائیوں کا بدلہ نیکی سے اور احترام کے ساتھ جواب دیا ھے۔

ابن ابی الحدید معتزلی جو اھل سنت کے علماء میں سے ھیں اس سلسلہ میں حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام اور عمر کے درمیان موازنہ کرتے ھوئے کہتے ھیں:

”اِنَّ عَلِیّاً اٴَکْرَمَھا وَصَانَھا وَعَظَّمَ مِنْ شَاٴنِھا، وَلَوْکاَنَتْ فَعَلَت بِعُمَرَ مَا فَعَلَتْ بِہِ ثُمَّ ظَفَرَ بِھا لَقَتَلَھَا وَمزَّقَھَااِرْباًاِرْباً، وَلٰکِنَّ عَلِیّاً کَانَ حَلِیماً کَرِیْماً۔“[81]

”علی (علیہ السلام) نے جنگ جمل کے خاتمہ پر عائشہ کا احترام کیا اور ان کی عظمت کو باقی رکھا، اگر عمر (حضرت) علی (علیہ السلام) کی جگہ ھوتے اور عائشہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتی تو ان کو گرفتار کرلیتے اور قتل کر ڈالتے اور اس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے، لیکن علی (علیہ السلام) ھمیشہ صابر اور بزرگوار تھے!“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 next