استاد محترم سے چند سوال



((فلمّا توفّٰی رسول اللہ قال أبوبکر : أنا ولی رسول اللہ ØŒ فجئتما Ù†ÛŒ تطلب میراثک من ابن أخیک ویطلب ھذامیراث امرأتہ عن أبیھا ØŒ فقال أبوبکر : قال رسول اللہ : ما نورث ،ما ترکنا صدقة فرأیتماہ کاذبا آثما ØŒ غادرا خائنا .واللہ یعلم انّہ لصادق بارّ راشد تابع للحقّ ثمّ توفٰی أبوبکر وأنا ولیّ رسول اللہ  Û– وولیّ أبی بکر فرأیتمانی کاذبا آثما غادرا خائنا))

جب رسول اکرم Û– Ù†Û’ وفات پائی تو ابوبکر Ù†Û’ کہا : میں آنحضرت Û– کاجانشین ہوں . اسوقت آپ دونوں ( عباس اور علی  ) Ù†Û’ آنحضرت  Ú©ÛŒ میراث طلب Ú©ÛŒ لیکن ابوبکر  Ù†Û’ کہا : رسول خد اۖ Ù†Û’ فرمایا ہے: ہم انبیاء

 Ø¬Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے تو آپ دونوں Ù†Û’ حضرت ابو بکر  Ú©Ùˆ جھوٹا ØŒ خائن ØŒ گنہگار اور دھوکے

باز کہا.جبکہ خدا جانتا ہے کہ وہ سچے ØŒ نیک ØŒ سیدھی راہ پر چلنے والے اور حق Ú©Û’ پیرو تھے . پھر جب حضرت ابو بکر  Ù†Û’ وفات پائی تو میں حضرت ابوبکر اور آنحضرتۖ کاجانشین بنا تو آپ دونوں Ù†Û’ مجھے بھی جھوٹا ØŒ گنہگار ØŒ دھوکے باز اور خائن سمجھا . صحیح مسلم Ù£: ١٤٣، کتاب الجہاد ØŒ باب Ø­Ú©Ù… الفیء Ø› صحیح بخاری Ù£: ٢٨٧، کتاب النفقات ØŒ باب Ù£ ØŒ باب حبس نفقة الرّجل قوت سنتہ علی أھلہ ØŒ اور Ù¤: ٢٦٢، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة ØŒ باب ما یکرہ من التعمق والتنازع ØŒ اور Ù¤: ١٦٥، کتاب الفرائض ،باب قول النّبیّ لانورث ØŒ او ر٢: ١٨٧،کتاب الخمس ØŒ باب فرض الخمس .

 Ø³ÙˆØ§Ù„ ١٠:کیا یہ درست ہے کہ امام بخاری Ù†Û’ اسی حدیث Ú©Ùˆ اپنی کتاب میں چار مختلف مقامات پر نقل کیا ہے لیکن لفظ گناہگار ØŒ خائن ØŒ پیمان Ø´Ú©Ù† Ú©ÛŒ جگہ کذا وکذا یا ((کلمتکما واحدة))Ù„Ú©Ú¾ دیاتاکہ یوں خلافت شیخین Ú©Û’ بارے میں اہل بیت پیغمبر  Û–Ú©ÛŒ منفی نظر سے لوگ آگاہ نہ ہو پائیں؟؟

    کہا جاتا ہے کہ امام بخاری Ù†Û’ باب خمس ØŒ نفقات ،اعتصام اور باب فرائض میں اس روایت Ú©Ùˆ نقل توکیا لیکن اس میں تبدیلی کردی .کتاب نفقات میں لکھا ہے :(( تزعمان أنّ أبابکرکذا وکذا)) اور باب فرائض میں یوں لکھا ہے : (( ثم Ù‘ جئتمانی وکلمتکما واحدة )).

 Ø³ÙˆØ§Ù„ ١١: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت ابوبکر  Ù†Û’ حضرت علی  Ú©Û’ قتل Ú©ÛŒ سازش بنائی اور اس کام Ú©Û’ لئے حضرت خالد بن ولید کا انتخاب کیا لیکن بعد میں ناکام ہوجانے Ú©Û’ ڈر سے پشیمان ہوئے اور خالد بن ولید Ú©Ùˆ اس کام سے روک دیا؟جیسا کہ ہمارے علماء میں سے سمعانی Ù†Û’ اس واقعہ Ú©Ùˆ نقل کیا ہے( Ù¢) تو کیا اس Ú©Û’ باوجود بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیخین Ú©Û’ اہل بیت رسول Û– اور خاص طور پر حضرت علی  Ú©Û’ ساتھ اچھے تعلقات تھے ØŸ

 Ø³ÙˆØ§Ù„ ١٢: کیا یہ صحیح ہے کہ ہمارے علماء خاص طور پر بیضاوی کا کہنا ہے کہ اصول دین میں سے اہم ترین مسئلہ امامت کا ہے اور اس کا مخالف بدعتی اور کافر ہے :

((انّ الامامة من أعظم مسائل أُ صول الدّین الّتی مخالفتھا توجب الکفر والبدعة ...)) الصوارم المحرقہ Ù£: ٢٢در حقیقت اس امامت سے مراد کونسی امامت ہے ØŸ کیا حضرت ابوبکر Ú©ÛŒ امامت ہے جس پر اُمّت کا اجماع تھا اور نہ ہی ان Ú©ÛŒ افضلیت Ú©ÛŒ کوئی دلیل ØŸ بلکہ فقط اور فقط ایک شخص Ú©Û’ اشارے پر یہ بیعت ہوئی اور وہ بھی حضرت عمر  ØŸ

      کیا واقعا ایسی امامت اصول دین میں سے ہے اور اس کا مخا لف کافر اور بدعتی ہے ØŸ! یا یہ کہ ایسی امامت مراد ہے جو خدا وند متعال Ú©ÛŒ عطا Ú©ÛŒ ہوئی اور پیغمبر Û– Ú©ÛŒ تائید شدہ ہوجیسا کہ ارشاد فرمایا: ((انّی جاعلک للناس اماما)) سورہ بقرہ : ١٢٤



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 next