استاد محترم سے چند سوال



١۔ربیع الابرار ٤: ١٧٢.أفلتت من معاویة ریح علی المنبر فقال: یاأیّھاالنّاس انّ اللہ خلق أبدانا وجعل فیھا أرواحا فما تمالک النّاس أن یخرج منھم ،فقام صعصعہ بن صوحان فقال: أمّا بعد فانّ خروج الأرواح فی المتوضأت سنّة وعلی المنابر بدعة،واستغفر اللہ لی ولکم .

٢۔ منھاج السّنة ٢: ٢٠٧

والنسائی وغیرھما، ولذلک قال البخاری: باب ذکر المعاویة ولم یقل : فضلہ ولامنقبتہ ))( ١)

اگر کہو کہ معاویہ کی شان میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ بالکل درست ہے لیکن ان میں سے کسی ایک کی بھی سند صحیح نہیں ہے اور اس کی تائید ابن راہویہ ، نسائی اور ان کے علاوہ دیگر علماء نے بھی کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بخاری نے (باب ذکر معاویة )یعنی معاویہ کے نام سے تو ایک باب لکھاہے لیکن یہ نہیں کہا کہ باب فضائل معاویہ.( اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ ان روایات میں سے کوئی ایک بھی درست نہیں ہے.)

٣۔ شوکانی کہتے ہیں: ((اتّفق الحفّاظ علی أنّہ لم یصحّ فی فضل معاویة حدیث ))

حفاظ حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ معاویہ کی فضیلت میں ایک بھی صحیح حدیث بیان نہیں ہوئی .(٢)

٤۔ ابن حجر نے اسحاق بن محمد سوسی کے حالات زندگی میں لکھا ہے:

((ذلک الجاھل الّذی أتی بالموضوعات السّمجة فی فضائل معاویة ،رواھا عبیداللہ السقطی عنہ  فھو المتّھم بھا أوشیخہ))(Ù£)                       [

یہ وہی جاہل ونادان شخص ہے جس نے معاویہ کی شان میں جھوٹی احادیث گھڑ ی ہیں اور عبید اللہ سقطی نے اس سے نقل کی ہیں ان دونوں میں سے کوئی ایک احادیث جعل کرنے میں متہم ہے ۔

١۔عمدة القاری شرح صحیح بخاری ١٦: ٢٤٩



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 next