زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



اس کے بعد قرآن مزید کہتا ھے :”کہ علاوہ اس کے کہ اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ھے ،مردوں کا ایک گروہ اس میں مشغول عباد ت ھے جو پسند کرتا ھے کہ اپنے آپ کو پاک وپاکیزہ رکھے اور خدا پاکباز لوگوں کو دوست رکھتا ھے “۔[108]

سب سے پھلی نماز جمعہ

پھلا جمعہ جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ اپنے اصحاب Ú©Û’ ساتھ پڑھا وہ اس وقت پڑھا گیا جب آپ Ù†Û’ مدینہ Ú©ÛŒ طرف ہجرت فرمائی Û” جب آپ مدینہ میں وارد هوئے تو اس دن پیر کا دن بارہ ربیع الاول او رظھر کا وقت تھا۔ حضرت چار دن تک”قبا “میں رھے او رمسجد قبا Ú©ÛŒ بنیاد رکھی ØŒ پھر جمعہ Ú©Û’ دن مدینہ Ú©ÛŒ طرف روانہ هوئے(قبااور مدینہ Ú©Û’ درمیان فاصلہ بہت Ú¾ÛŒ Ú©Ù… Ú¾Û’ اور موجودہ وقت میںقبا مدینہ کا ایک داخلی محلہ Ú¾Û’)

اور نماز جمعہ Ú©Û’ وقت آپ محلہ”بنی سالم“میں پہنچے وھاں نماز جمعہ ادا فرمائی اور یہ اسلام میں پھلا جمعہ تھا جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ اداکیا۔ جمعہ Ú©ÛŒ نماز میں آپ Ù†Û’ خطبہ بھی پڑھا۔ جو مدینہ میں آنحضرت کا پھلا خطبہ تھا۔

واقعہ غدیر

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا آخری سال تھا”حجة الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار و پرشکوہ هو سکتے تھے اس قدر پیغمبر اکرم کی ھمراھی میں اختتام پذیر هوئے۔ سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررھی تھی ۔ اصحاب پیغمبر جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس عظیم نعمت سے فیض یاب هوئے او راس سعادت کے حاصل هونے پر جامے میں پھولے نھیں سماتے تھے۔

نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ھمراہ تھے۔

سرزمین حجاز کا سورج دروں اور پھاڑوںپر آگ برسارھا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی مٹھاس تمام تکلیفوں کو آسان بنارھی تھی۔ زوال کا وقت نزدیک تھا۔ آہستہ آہستہ ”حجفہ “کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے”غدیرخم“ کے بیابان نظر آنے لگے۔

در اصل یھاں پر ایک چوراھا ھے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ھے۔ شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ھے یھی وہ مقام ھے جھاں پر آخری مقصد او راس عظیم سفر کااھم ترین کام انجام پذیر هوتا تھا تاکہ مسلمان پیغمبر کی اھم ذمہ داریوںمیںسے ان کا آخری حکم جان کر ایک دوسرے سے جداهوں ۔

جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال۔ آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے ان کے ھمراھیوں کو ٹھھر جانے کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں نے بلندآواز سے ان لوگوں کو جو قافلے کے آگے چل رھے تھے واپس لوٹنے کے لئے پکارا اوراتنی دیر کے لئے ٹھھر گئے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ جائیں۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظھر پڑھنے کی دعوت دی ۔ مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار هوگئے ۔ لیکن فضاء اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ مجبور تھے کہ وہ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی سر کے اوپر لے لیں،ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next