زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



تاریخ اسلام کے اھم حادثوںمیں سے ایک جنگ احزاب بھی ھے یہ ایک ایسی جنگ جو تاریخ اسلام میں ایک اھم تاریخی موڑ ثابت هوئی اور اسلام وکفر کے درمیان طاقت کے موازنہ کے پلڑے کو مسلمانوں کے حق میں جھکادیا اور اس کی کامیابی آئندہ کی عظیم کامیابیوں کے لئے کلیدی حیثیت اختیارکر گئی اور حقیقت یہ ھے کہ اس جنگ میں دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی اور اس کے بعد وہ کوئی خاص قابل ذکر کار نامہ انجام دینے کے قابل نہ رہ سکے ۔

” یہ جنگ احزاب“ جیسا کہ اس Ú©Û’ نام سے ظاھر Ú¾Û’ تمام اسلام دشمن طاقتوں اور ان مختلف گرو هوں Ú©ÛŒ طرف سے ھر طرح کا مقابلہ تھا کہ اس دین Ú©ÛŒ پیش رفت سے ان لوگوں Ú©Û’ ناجائز مفادات خطرے میں پڑگئے تھے Û” جنگ Ú©ÛŒ Ø¢Ú¯ Ú©ÛŒ چنگاری”نبی نضیر“ یهودیوں Ú©Û’ اس گروہ Ú©ÛŒ طرف سے بھڑکی جو مکہ میں آئے اور قبیلہ ”قریش“ Ú©Ùˆ آنحضرت  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ø³Û’ Ù„Ú‘Ù†Û’ پر اکسایا اور ان سے وعدہ کیا کہ آخری دم تک ان کا ساتھ دیں Ú¯Û’ پھر قبیلہ ”غطفان “ Ú©Û’ پاس گئے اور انھیں بھی کارزار Ú©Û’ لئے آمادہ کیا Û”

ان قبائل نے اپنے ھم پیمان اور حلیفوں مثلاً قبیلہ ” بنی اسد “ اور” بنی سلیم “ کو بھی دعوت دی اور چونکہ یہ سب قبائل خطرہ محسوس کئے هوئے تھے، لہٰذا اسلام کا کام ھمیشہ کے لئے تمام کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ھاتھ میں ھاتھ دےدیا تاکہ وہ اس طرح سے پیغمبر کو شھید ، مسلمانوں کو سر کوب ، مدینہ کو غارت اور اسلام کا چراغ ھمیشہ کے لئے گل کردیں ۔

کل ایمان کل کفر کے مقابلہ میں

جنگ احزاب کفر Ú©ÛŒ آخری کوشش ،ان Ú©Û’ ترکش کا آخری تیراور شرک Ú©ÛŒ قوت کا آخری مظاھرہ تھا اسی بنا پر جب دشمن کا سب سے بڑا پھلو ان عمروبن عبدودعالم اسلام Ú©Û’ دلیر مجاہد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام Ú©Û’ مقابلہ میں آیا تو پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ فرمایا :”سارے کا سارا ایمان سارے Ú©Û’ سارے (کفر اور ) شرک Ú©Û’ مقابلہ میں آگیا Ú¾Û’ “۔

کیونکہ ان میں سے کسی ایک کی دوسرے پر فتح کفر کی ایمان پر یا ایمان کی کفر پر مکمل کا میابی تھی دوسرے لفظوں میں یہ فیصلہ کن معرکہ تھا جو اسلام اور کفر کے مستقبل کا تعین کررھا تھا اسی بناء پر دشمن کی اس عظیم جنگ اور کار زار میں کمر ٹوٹ گئی اور اس کے بعد ھمیشہ مسلمانوں کاپلہ بھاری رھا ۔

دشمن کا ستارہٴ اقبال غروب هوگیا اور اس Ú©ÛŒ طاقت Ú©Û’ ستون ٹوٹ گئے اسی لئے ایک حدیث میں Ú¾Û’ کہ حضرت رسول گرامی  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم   Ù†Û’ جنگ احزاب Ú©Û’ خاتمہ پر فرمایا :

”اب ھم ان سے جنگ کریں گے اور ان میں ھم سے جنگ کی سکت نھیں ھے“ ۔

لشکر کی تعداد

بعض موٴرخین نے لشکر کفار کی تعداد دس ہزار سے زیادہ لکھی ھے ۔مقریزی اپنی کتاب ”الا متاع “ میں لکھتے ھیں :”صرف قریش نے چارہزار جنگ جوؤں ، تین سو گھوڑوں اور پندرہ سواونٹوں کے ساتھ خندق کے کنارے پڑاؤ ڈالا تھا ،قبیلہٴ” بنی سلیم “سات سو افراد کے ساتھ ”مرالظھران “ کے علاقہ میں ان سے آملا، قبیلہ ”بنی فرازہ“ ہزار افراد کے ساتھ ، ”بنی اشجع“ اور” بنی مرہ“ کے قبائل میں سے ھر ایک چار چار سو افراد کے ساتھ پہنچ گیا ۔ اور دوسرے قبائل نے بھی اپنے آدمی یہ بھیجے جن کی مجموعی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ بنتی ھے “



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next