زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



اس بات پر تقریباً اتفاق ھے کہ میدان حنین میں سے اکثریت ابتداء میں بھاگ گئی تھی، جو باقی رہ گئے تھے ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق دس تھی او ربعض نے تو ان کی تعداد چار بیان کی ھے بعض نے زیادہ سے زیادہ سو افراد لکھے ھیں ۔

بعض مشهور روایات Ú©Û’ مطابق چونکہ Ù¾Ú¾Ù„Û’ خلفاء بھی بھاگ جانے والوں میں سے تھے لہٰذا بعض اھلِ سنت مفسرین Ù†Û’ کوشش Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ اس فرار Ú©Ùˆ ایک فطری چیز Ú©Û’ طور پر پیش کیا جائے Û” المنار Ú©Û’ موٴلف لکھتے ھیں : ”جب دشمن Ú©ÛŒ طرف سے مسلمانوں پر تیروں Ú©ÛŒ سخت بوچھارهوئی توجو لوگ مکہ سے مسلمانوں Ú©Û’ ساتھ مل گئے تھے، اورجن میں منافقین اورضعیف الایمان بھی تھے اور جو مال غنیمت Ú©Û’ لئے آگئے تھے وہ بھاگ Ú©Ú¾Ú‘Û’ هوئے اور انهوں Ù†Û’ میدان میں پشت دکھائی تو باقی لشکر بھی فطری طور پر مضطرب او رپریشان هوگیا وہ بھی معمول Ú©Û’ مطابق نہ کہ خوف Ùˆ ھراس سے ،بھاگ Ú©Ú¾Ú‘Û’ هوئے اوریہ ایک فطری بات Ú¾Û’ کہ اگر ایک گروہ فرار هو جائے تو باقی بھی بے سوچے سمجھے متزلزل هو جاتے ھیں، لہٰذا ان کا فرار هونا پیغمبر  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم Ú©ÛŒ مدد ترک کرنے او رانھیں دشمن Ú©Û’ ھاتھ میں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ جانے Ú©Û’ طور پر نھیں تھا کہ وہ خداکے غضب Ú©Û’ مستحق هوں، Ú¾Ù… اس بات Ú©ÛŒ تشریح نھیں کرتے او راس کا فیصلہ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ والوں پر چھوڑتے ھیں “۔

جنگ تبوک

”تبوک“[97]کا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جھاں پیغمبر  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ اپنی جنگوں میں پیش قدمی Ú©ÛŒ Û” ”تبوک“اصل میںایک محکم اور بلند قلعہ کا نام تھا Û” جو حجاز او رشام Ú©ÛŒ سرحد پر واقع تھا Û” اسی وجہ سے اس علاقے Ú©Ùˆ سر زمین تبوک کہتے تھے Û”

جزیرہ نمائے عرب میں اسلام Ú©Û’ تیز رفتار نفوذ Ú©ÛŒ وجہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم Ú©ÛŒ شھرت اطراف Ú©Û’ تمام ممالک میں گونجنے Ù„Ú¯ÛŒ باوجود یہ کہ وہ اس وقت حجازکی اھمیت Ú©Û’ قائل نھیں تھے لیکن طلوع اسلام اور لشکر اسلام Ú©ÛŒ طاقت کہ جس Ù†Û’ حجاز Ú©Ùˆ ایک پرچم تلے جمع کرلیا، Ù†Û’ انھیں اپنے مستقبل Ú©Û’ بارے میں تشویش میں ڈال دیا Û”

مشرقی روم Ú©ÛŒ سرحد حجاز سے ملتی تھی اس حکومت Ú©Ùˆ خیال هوا کہ کھیں اسلام Ú©ÛŒ تیز رفتار ترقی Ú©ÛŒ وہ Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ قربانی نہ بن جائے لہٰذا اس Ù†Û’ چالیس ہزار Ú©ÛŒ زبردست مسلح فوج جو اس وقت Ú©ÛŒ روم جیسی طاقتور حکومت Ú©Û’ شایان شان تھی‘ اکھٹی Ú©ÛŒ اور اسے حجاز Ú©ÛŒ سرحد پر لاکھڑا کیا یہ خبر مسافروں Ú©Û’ ذریعے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم Ú©Û’ کانوں تک پہنچی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ روم اور دیگر ھمسایوں کودرس عبرت دینے Ú©Û’ لئے توقف کئے بغیر تیاری کا Ø­Ú©Ù… صادر فرمایاآپ Ú©Û’ منادیوںنے مدینہ اور دوسرے علاقوں تک آپ کا پیغام پہنچایا تھوڑے Ú¾ÛŒ عرصہ میں تیس ہزار افراد رومیوں سے جنگ کرنے Ú©Û’ لئے تیار هوگئے ان میں دس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادہ تھے Û”

موسم بہت گرم تھا، غلے Ú©Û’ گودام خالی تھے اس سال Ú©ÛŒ فصل ابھی اٹھائی نھیں گئی تھی ان حالات میں سفر کرنا مسلمانوں Ú©Û’ لئے بہت Ú¾ÛŒ مشکل تھا لیکن چونکہ خدا اور رسول کافرمان تھا لہٰذا ھر حالت میں سفر کرنا تھا اور مدینہ اور تبوک Ú©Û’ درمیان پرُ خطر طویل صحرا Ú©Ùˆ عبور کرنا تھا Û”  

لشکر ی مشکلات

اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زھریلی هوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ ”جیش العسرة“ (یعنی سختیوں والا لشکر ) کے نام سے مشهور هوا ۔

تاریخ اسلام نشاندھی کرتی ھے کہ مسلمان کبھی بھی جنگ تبوک کے موقع کی طرح مشکل صورت حال، دباؤ اور زحمت میں مبتلا نھیں هوئے تھے کیونکہ ایک تو سفر سخت گرمی کے عالم میں تھا دوسرا خشک سالی نے لوگوں کو تنگ اور ملول کررکھا تھا اور تیسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے کے دن تھے اور اسی پر لوگوں کی سال بھر کی آمدنی کا انحصار تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next