زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



فدک اطراف مدینہ میں تقریباً ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر خیبر کے نزدیک ایک آباد قصبہ تھا۔جب سات ہجری میں خیبر کے قلعے یکے بعد دیگر افواج اسلامی نے فتح کرلئے اور یهودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یهودی صلح کے خیال سے بارگاہ پیغمبر میں سرتسلیم خم کرتے هوئے آئے اور انهوں نے اپنی آدھی زمینیں اور باغات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد کردئیے اور آدھے اپنے پاس رکھے ۔ اس کے علاوہ انهوں نے پیغمبر اسلام کے حصہ زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی۔ اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ پیغمبر اسلام سے وصول کرتے تھے،(سورہٴ حشر آیت)کے پیش نظراس کی طرف توجہ کرتے هوئے یہ زمینیں پیغمبر اسلام کی ملکیت خاص تھیں ۔ ان کی آمدنی کو آپ اپنے مصرف میں لاتے تھے یا ان مدات میں خرچ کرتے تھے جن کی طرف اس سورہ کی آیت نمبر۷ میں اشارہ هوا ھے ۔

 Ù„ہٰذا پیغمبر Ù†Û’ یہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمة الزھرا سلام اللہ علیھا کوعنایت فرمادیں۔ یہ ایسی حقیقت Ú¾Û’ جسے بہت سے شیعہ اور اھل سنت مفسرین Ù†Û’ تصریح Ú©Û’ ساتھ تحریر کیا ھے۔منجملہ دیگر مفسرین Ú©Û’ تفسیر درالمنثور میں ابن عباسۻ سے مروی Ú¾Û’ کہ جس وقت آیت (فات ذاالقربیٰ حقہ)[111] نازل هوئی تو پیغمبر   Ù†Û’ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا Ú©Ùˆ فدک عنایت فرمایا:                                

کتا ب کنزالعمال جو مسند احمد Ú©Û’ حاشیہ پر Ù„Ú©Ú¾ÛŒ گئی ھے،میں صلہ رحم Ú©Û’ عنوان Ú©Û’ ماتحت ابو سعید خدری سے منقول Ú¾Û’ کہ جس وقت مذکورہ بالاآیت نازل هوئی تو پیغمبر صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ فاطمہ سلام اللہ علیھا Ú©Ùˆ طلب کیا اور فرمایا:

” یا فاطمة لکِ فدک“

”اے فاطمہ(ع) فدک تیری ملکیت ھے“۔

حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی تاریخ میں اس حقیقت کو تحریرکیا ھے۔

ابن ابی الحدید معتزلی Ù†Û’ بھی نہج البلاغہ Ú©ÛŒ شرح میں داستان فدک تفصیل Ú©Û’ ساتھ بیان Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور اسی طرح بہت سے دیگر مورخین Ù†Û’ بھی،لیکن وہ افراد جو اس اقتصادی قوت Ú©Ùˆ حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ زوجہ محترمہ Ú©Û’ قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت Ú©Û’ لئے مضر سمجھتے تھے،انهوں Ù†Û’ مصصم ارادہ کیا کہ حضرت علی علیہ السلام Ú©Û’ یاور وانصار Ú©Ùˆ ھر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کردیں۔ حدیث مجهول(نحن معاشر الانبیاء ولا نورث) Ú©Û’ بھانے انهوں Ù†Û’ اسے اپنے قبضہ میں Ù„Û’ لیا اور باوجود یکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا قانونی طور پر اس پر متصرف تھیں اور کوئی شخص ”ذوالید“(جس Ú©Û’ قبضہ میں مال هو)سے گواہ کا مطالبہ نھیں کرتا،جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے گواہ طلب کیے گئے Û” بی بی Ù†Û’ گواہ پیش کیے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ خود انھیں فدک عطا فرمایا Ú¾Û’ لیکن انهوں Ù†Û’ ان تمام چیزوں Ú©ÛŒ کوئی پرواہ نھیں کی۔بعد میں آنے والے خلفاء میں سے جو کوئی اھلبیت  (ع) سے محبت کا اظھار کرتا تو وہ فدک انھیں لوٹا دیتا لیکن زیادہ دیر نہ گزرتی کہ دوسرا خلیفہ اسے چھین لیتا اور دوبارہ اس پر قبضہ کرلیتا Û” خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس بارھا یہ اقدام کرتے رھے Û”

 ÙˆØ§Ù‚عہ فدک اور اس سے تعلق رکھنے والے مختلف النوع حوادث جو صدر اسلام میں اور بعد Ú©Û’ ادوار میں پیش آئے،زیادہ دردناک اورغم انگیز ھیں اور وہ تاریخ اسلام کا ایک عبرت انگیز حصہ بھی ھیں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ کا متقاضی Ú¾Û’ تا کہ تاریخ اسلام Ú©Û’ مختلف حوادث نگاهوں Ú©Û’ سامنے آسکیں۔

قابل توجہ بات یہ ھے کہ اھل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشهور و معروف کتاب ”صحیح مسلم“ میں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیھا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ھے، اور جناب عائشہ کی زبانی نقل کیا ھے کہ جناب فاطمہ کو جب خلیفہ اول نے فدک نھیں دیا تو بی بی ان سے ناراض هوگئی اور آخر عمر ان سے کوئی گفتگو نھیں کی۔(صحیح مسلم،کتاب جھاد ج۳ص۱۳۸۰حدیث ۵۲)

”نحن معاشر الانبیاء لا نورث“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next