زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



ان تمام چیزوں کے علاوہ مدینہ اور تبوک کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا اور مشرقی روم کی سلطنت کا انھیں سامنا تھا جو اس وقت کی سپر پاور تھی۔

مزید برآں سواریاں اور رسد مسلمانوں کے پاس اتنا کم تھا کہ بعض اوقات دوافراد مجبور هوتے تھے کہ ایک ھی سواری پرباری باری سفر کریں بعض پیدل چلنے والوں کے پاس جوتاتک نھیںتھا اور وہ مجبور تھے کہ وہ بیابان کی جلانے والی ریت پرپا برہنہ چلیں آب وغذا کی کمی کا یہ عالم تھا کہ بغض اوقات خرمہ کا ایک دانہ چند آدمی یکے بعد دیگرے منہ میں رکھ کر چوستے تھے یھاں تک کہ اس کی صرف گٹھلی رہ جاتی پانی کا ایک گھونٹ کبھی چند آدمیوں کو مل کر پینا پڑتا ۔

یہ واقعہ نوہجری یعنی فتح مکہ سے تقریبا ایک سال بعد رونماهوا ۔مقابلہ چونکہ اس وقت کی ایک عالمی سوپر طاقت سے تھا نہ کہ عرب کے کسی چھوٹے بڑے گروہ سے لہٰذا بعض مسلمان اس جنگ میں شرکت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال میں منافقین کے زھریلے پر وپیگنڈے اور وسوسوں کے لئے ماحول بالکل ساز گار تھا اور وہ بھی مومنین کے دلوں اور جذبات کوکمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نھیں کررھے تھے ۔

پھل اتارنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا جن لوگوں کی زندگی تھوڑی سی کھیتی باڑی اور کچھ جانور پالنے پر بسر هوتی تھی یہ ان کی قسمت کے اھم دن شمار هوتے تھے کیونکہ ان کی سال بھر کی گزر بسر انھیں چیزوں سے وابستہ تھےں۔

جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں مسافت کی دوری اور موسم کی گرمی بھی روکنے والے عوامل کی مزید مدد کرتی تھی اس موقع پر آسمانی وحی لوگوں کی مدد کے لئے آپہنچی اور قرآنی آیات یکے بعد دیگر ے نازل هوئیں اور ان منفی عوامل کے سامنے آکھڑی هوئیں۔

تشویق ، سرزنش، اور دھمکی کی زبان

قرآن جس قدر هوسکتی ھے اتنی سختی اور شدت سے جھاد کی دعوت دتیاھے ۔ کبھی تشویق کی زبان سے کبھی سرزنش کے لہجے میں اورکبھی دھمکی کی زبان میں ان سے بات کرتا ھے،اور انھیںآمادہ کرنے کے لئے ھر ممکن راستہ اختیار کرتا ھے۔ پھلے کہتا ھے:” کہ خدا کی راہ میں ،میدان جھاد کی طرف حرکت کرو تو تم سستی کا مظاھرہ کرتے هو اور بوجھل پن دکھاتے هو “۔[98]

اس کے بعد ملامت آمیز لہجے میں قرآن کہتا ھے : ”آخرت کی وسیع اور دائمی زندگی کی بجائے اس دنیاوی پست اور ناپائیدار زندگی پر راضی هوگئے هو حالانکہ دنیاوی زندگی کے فوائد اور مال ومتاع آخرت کی زندگی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نھیں رکھتے اور بہت ھی کم ھیں “۔[99]

ایک عقلمند انسان ایسے گھاٹے کے سودے پر کیسے تیار هوسکتا ھے اور کیونکہ وہ ایک نھایت گراں بھامتاع اور سرمایہ چھوڑکر ایک ناچیز اور بے وقعت متاع کی طرف جاسکتاھے ۔

اس کے بعد ملامت کے بجائے ایک حقیقی تہدید کا اندازاختیار کرتے هوئے ارشاد فرمایا گیا ھے :” اگر تم میدان جنگ کی طرف حرکت نھیں کرو گے تو خدا دردناک عذاب کے ذریعے تمھیں سزادے گا“۔ [100]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next