زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



”اور اگر تم گمان کرتے هو کہ تمھارے کنارہ کش هونے اور میدان جھاد سے پشت پھیرنے سے اسلام کی پیش رفت رک جائے گی اور آئینہ الٰھی کی چمک ماند پڑجائے گی تو تم سخت اشتباہ میں هو ،کیونکہ خدا تمھارے بجائے ایسے صاحبان ایمان کو لے آئے گا جو عزم مصمم رکھتے هوں گے اور فرمان خدا کے مطیع هوں گے“۔ [101]

وہ لوگ کہ جو ھر لحاظ سے تم سے مختلف ھیں نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ انکا ایمان، ارادہ،دلیری اور فرماں برداری بھی تم سے مختلف ھے لہٰذا ” اس طرح تم خدا اور اس کے پاکیزہ دین کو کوئی نقصان نھیں پہنچا سکتے“ ۔[102]

تنھاوہ جنگ جس میںحضرت علی نے شرکت نہ کی

اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زھریلی هوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکّڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ” جیش العسرة“ (یعنی سختیوں والا لشکر )کے نام سے مشهور هوا اس نے تمام سختیوں کو جھیلا اور ماہ شعبان کی ابتداء میں ہجرت کے نویں سال سرزمین ”تبوک“ میں پہنچا جب کہ رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ پر مدینہ میں چھوڑآئے تھے یہ واحد غزوہ ھے جس میں حضرت علی علیہ السلام شریک نھیں هوئے ۔

رسول اللہ کایہ اقدام بہت ھی مناسب اور ضروری تھا کیونکہ بہت احتمال تھا کہ بعض پیچھے رہنے والے مشرکین یامنا فقین جو حیلوں بھانوں سے میدان تبوک میں شریک نہ هوئے تھے، رسول اللہ اور ان کی فوج کی طویل غیبت سے فائدہ اٹھائیں اور مدینہ پر حملہ کردیں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں اور مدینہ کو تاراج کردیں لیکن حضرت علی کا مدینہ میں رہ جانا ان کی سازشوں کے مقابلے میں ایک طاقتور رکاوٹ تھی ۔

بھرحال جب رسول اللہ تبوک میں پہنچے تو وھاں آپ کو رومی فوج کا کوئی نام ونشان نظر نہ آیا عظیم سپاہ اسلام چونکہ کئی جنگوں میں اپنی عجیب وغریب جراٴت وشجاعت کا مظاھرہ کرچکی تھی، جب ان کے آنے کی کچھ خبر رومیوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے اسی کو بہتر سمجھا کہ اپنے ملک کے اندرچلے جائیں اور اس طرح سے ظاھر کریں کہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے لشکر روم کی سرحدوں پر جمع هونے کی خبر ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہ تھی کیونکہ وہ ایک ایسی خطرناک جنگ شروع کرنے سے ڈرتے تھے جس کا جواز بھی ان کے پاس کوئی نہ تھا لیکن لشکر اسلام کے اس طرح سے تیز رفتاری سے میدان تبوک میں پہنچنے نے دشمنانِ اسلام کو کئی درس سکھائے، مثلاً:

۱۔یہ بات ثابت هوگئی کہ مجاہدین اسلام کا جذبہ جھاد اس قدر قوی ھے کہ وہ اس زمانے کی نھایت طاقت ور فوج سے بھی نھیں ڈرتے۔

Û²Û” بہت سے قبائل اور اطراف تبوک Ú©Û’ امراء پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم Ú©ÛŒ خدمت میں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ کرنے Ú©Û’ عہدوپیمان پر دستخط کیے اس طرح مسلمان ان Ú©ÛŒ طرف سے آسودہ خاطر هوگئے Û”

۳۔ اسلام کی لھریں سلطنت روم کی سرحدوں کے اندر تک چلی گئیں اور اس وقت کے ایک اھم واقعہ کے طور پر اس کی آواز ھر جگہ گونجی اور رومیوں کے اسلام کی طرف متوجہ هونے کے لئے راستہ ھموار هوگیا ۔

۴۔ یہ راستہ طے کرنے اور زحمتوں کو برداشت کرنے سے آئندہ شام کا علاقہ فتح کرنے کے لئے راہ ھموار هوگئی اور معلوم هوگیا کہ آخرکار یہ راستہ طے کرنا ھی ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next