زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



Ú¾Ù… ایک روایت میں پڑھتے ھیں کہ ایک صحابی رسول کسی ضرورت Ú©Û’ تحت میدان” احزاب “ سے شھر میں آیا هوا تھا اس Ù†Û’ اپنے بھائی Ú©Ùˆ دیکھا کہ اس Ù†Û’ اپنے سامنے روٹی ØŒ بھنا هوا گوشت اور شراب رکھے هوئے تھے ØŒ تو صحابی Ù†Û’ کھا تم تو یھاں عیش وعشرت میں مشغول هواور رسول خدا نیزوں اور تلواروں Ú©Û’ درمیان مصروف پیکار ھیں اس Ù†Û’ جواب میں کھا ØŒ اے بے وقوف : تم بھی ھمارے ساتھ بیٹھ جاؤ اور مزے اڑاؤ  اس Ù†Û’ کھا:اس خدا Ú©ÛŒ قسم جس Ú©ÛŒ محمد کھاتا Ú¾Û’ وہ اس میدان سے ھرگز پلٹ کر واپس نھیں آئے گا اور یہ عظیم لشکر جو جمع هوچکا Ú¾Û’ اسے اور اس Ú©Û’ ساتھیوں Ú©Ùˆ زندہ نھیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Û’ گا Û”

یہ سن کر وہ صحابی کہنے لگے :تو بکتا ھے،خدا کی قسم میں ابھی رسول اللہ کے پاس جاکر تمھاری اس گفتگو سے باخبر کرتا هوں، چنانچہ انھوں نے بارگاہ رسالت میں پہنچ کر تمام ماجرا بیان کیا ۔

وہ ھرگز ایمان نھیں لائے

قرآن فرماتاھے :” ان تمام رکاوٹوں کا باعث یہ ھے کہ وہ تمھاری بابت تمام چیزوں میںبخیل ھیں“۔[64]

نہ صرف میدان جنگ میں جان قربان کرنے میں بلکہ وسائل جنگ مھیا کرنے کے لئے مالی امداد اور خندق کھودنے کے لئے جسمانی امداد حتی کہ فکری امداد مھیا کرنے میں بھی بخل سے کام لیتے ھیں، ایسا بخل جو حرص کے ساتھ هوتا ھے اور ایسا حرص جس میں روز بروز اضافہ هوتا رہتا ھے ۔

ان کے بخل اور ھر قسم کے ایثارسے دریغ کرنے کے بیان کے بعد ان کے ان دوسرے اوصاف کو جو ھر عہد اور ھر دور کے تمام منافقین کے لئے تقریباً عمو میت کا درجہ رکھتے ھیں بیان کرتے هوئے کہتا ھے :” جس وقت خوفناک اور بحرانی لمحات آتے ھیں تو وہ اس قدر بزدل اور ڈرپوک ھیں کہ آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کو دیکھ رھے ھیں حالانکہ ان کی آنکھوں میں ڈھیلے بے اختیار گردش کررھے ھیں ، اس شخص کی طرح جو جاں کنی میں مبتلا هو “ [65]

چونکہ وہ صحیح ایمان کے مالک نھیں ھیں اور نہ ھی زندگی میں ان کا کوئی مستحکم سھارا ھے ، جس وقت کسی سخت حادثہ سے دوچار هوتے ھیں تو وہ لوگ بالکل اپنا توازن کھوبیٹھتے ھیں جیسے ان کی روح قبض ھی هوجائے گی۔

پھر مزید کہتا ھے: ” لیکن یھی لوگ جس وقت طوفان رک جاتاھے اور حالات معمول پر آجاتے ھیں تو تمھارے پاس یہ توقع لے کر آتے ھیں کہ گویا جنگ کے اصلی فاتح یھی ھیں اور قرض خواهوں کی طرح پکار پکار کر سخت اور درشت الفاظ کے ساتھ مال غنیمت سے اپنے حصہ کا مطالبہ کرتے ھیں اور اس میں سخت گیر، بخیل اور حریص ھیں “۔[66]

 Ø¢Ø®Ø± میں ان Ú©ÛŒ آخری صفت Ú©ÛŒ طرف جو درحقیقت میں ان Ú©ÛŒ تمام بد بختیوں Ú©ÛŒ جڑ اور بنیاد Ú¾Û’ ØŒ اشارہ کرتے هوئے فرماتاھے ” وہ ھر گز ایمان نھیں لائے۔اور اسی بناپر خدانے ان Ú©Û’ اعمال نیست ونابود کردئیے ھیںکیونکہ ان Ú©Û’ اعمال خدا Ú©Û’ لئے نھیں ھیں اور ان میں اخلاص نھیں پایا جاتا۔[67]

”وہ اس قدر وحشت زدہ هو چکے ھیں کہ احزاب اور دشمن کے لشکروں کے پر اگندہ هوجانے کے بعد بھی یہ تصور کرتے ھیں کہ ابھی وہ نھیں گئے“۔[68]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next