زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



جب مسلمان ”ذی الحلیفہ“ مدینہ کے نزدیک پهونچے،اور بہت اونٹوں کو قربانی کے لئے لے لیا۔

پیغمبر (اور آپ (ع)کے اصحاب کا)طرز عمل بتارھا تھا کہ عبادت کے علاوہ کوئی دوسرا قصد نھیں تھا۔جب پیغمبر مکہ کے نزدیکی مقام آپ کو اطلاع ملی کہ قریش نے یہ پختہ ارادہ کرلیا ھے کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ هونے دیں گے ،یھاں تک کہ پیغمبرمقام” حدیبیہ“میں پہنچ گئے ( حدیبیہ مکہ سے بیس کلو مٹر کے فاصلہ پر ایک بستی ھے ،جو ایک کنویں یا درخت کی مناسبت سے اس نام سے مو سوم تھی )حضرت نے فرمایا: کہ تم سب اسی جگہ پر رک جاؤ،لوگوں نے عرض کی کہ یھاں تو کوئی پانی نھیں ھے پیغمبر نے معجزانہ طور پر اس کنویںسے جو وھاںتھا ،اپنے اصحاب کے لئے پانی فراھم کیا ۔

اسی مقام پر قریش او رپیغمبر Ú©Û’ درمیان سفراء آتے جاتے رھے تاکہ کسی طرح سے مشکل حل هو جائے ØŒ آخرکا ر”عروہ ابن مسعودثقفی“جو ایک هوشیا ر آدمی تھا ،قریش Ú©ÛŒ طرف سے پیغمبر Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر هوا ،پیغمبر  Ù†Û’ فرمایا میں جنگ Ú©Û’ ارادے سے نھیں آیا او رمیرا مقصد صرف خانہٴ خدا Ú©ÛŒ زیارت Ú¾Û’ ،ضمناًعروہ Ù†Û’ اس ملاقات میں پیغمبر Ú©Û’ وضو کرنے کا منظربھی دیکھا،کہ صحابہ آپ Ú©Û’ وضو Ú©Û’ پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پرگرنے نھیں دیتے تھے ،جب وہ واپس لوٹا تو اس Ù†Û’ قریش سے کھا :میں قیصر وکسریٰ او رنجاشی Ú©Û’ دربارمیں گیا هوں ۔میں Ù†Û’ کسی سربراہ مملکت Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ قوم Ú©Û’ درمیان اتنا با عظمت نھیں دیکھا ،جتنا محمدکی عظمت Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ اصحاب Ú©Û’ درمیان دیکھا Ú¾Û’ Û” اگر تم یہ خیال کرتے هو کہ محمدکو Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ جائیںگے تویہ بہت بڑی غلطی هو Ú¯ÛŒ ،دیکھ لو تمھارا مقابلہ ایسے ایثار کرنے والوں Ú©Û’ ساتھ Ú¾Û’ ۔یہ تمھارے لئے غور Ùˆ فکر کا مقام Ú¾Û’ Û”

بیعت رضوان

اسی دوران پیغمبر Ù†Û’ عمر سے فرمایا: کہ وہ مکہ جائیں ØŒ او ر اشراف قریش Ú©Ùˆ اس سفرکے مقصد سے آگاہ کریں ،عمر Ù†Û’ کھاقریش مجھ سے شدید دشمنی رکھتے ھیں ،لہٰذامجھے ان سے خطرہ Ú¾Û’ ØŒ بہتر یہ Ú¾Û’ کہ عثمان Ú©Ùˆ اس کام Ú©Û’ لئے بھیجا جائے ،عثمان مکہ Ú©ÛŒ طرف آئے ،تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ مسلمانوں Ú©Û’ ورمیان یہ افواہ پھیل گئی کہ ان Ú©Ùˆ قتل کر دیاھے Û” اس مو قع پرپیغمبرنے شدت عمل کا ارادہ کیا او رایک درخت Ú©Û’ نیچے جو وھاں پرموجودتھا ،اپنے اصحاب سے بیعت Ù„ÛŒ جو ”بیعت رضوان“ Ú©Û’ نام سے مشهو رهوئی ،او ران Ú©Û’ ساتھ عہد وپیمان کیا کہ آخری سانس تک ڈٹیں گے،لیکن تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ عثمان صحیح Ùˆ سالم واپس لوٹ آئے او رانکے پیچھے پیچھے قریش نے”سھیل بن عمر“کو مصالحت Ú©Û’ لئے پیغمبر صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ú©ÛŒ خدمت میں بھیجا ،لیکن تاکید Ú©ÛŒ کہ اس سال کسی طرح بھی آپکا مکہ میںورود ممکن نھیں Ú¾Û’ Û”

بہت زیادہ بحث و گفتگو کے بعد صلح کا عہد و پیمان هوا،جس کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ سے باز رھیں او ر آئندہ سال مکہ میں آئیں،اس شرط کے ساتھ کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ رھیں ،او رمسافرت کے عام ہتھیارکے علاوہ او رکوئی اسلحہ اپنے ساتھ نہ لائیں۔اورمتعددمواد جن کا دارومداران مسلمانوںکی جان و مال کی امنیت پر تھا،جو مدینہ سے مکہ میں واردهوں،او راسی طرح مسلمانوں اورمشرکین کے درمیان دس سال جنگ نہ کرنے او رمکہ میں رہنے والے مسلمانوںکے لئے مذھبی فرائض کی انجام دھی بھی شامل کی گئی تھی۔

یہ پیمان حقیقت میں ھر جہت سے ایک عدم تعرض کا عہد و پیمان تھا ،جس نے مسلمانوںاو رمشرکین کے درمیان مسلسل اوربار با رکی جنگوں کو وقتی طور پر ختم کردیا ۔

صلح نامہ کی تحریر

”صلح Ú©Û’ عہدو پیمان کا متن “اس طرح تھاکہ پیغمبر  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ علی علیہ السلام کوحکم دیا کہ Ù„Ú©Ú¾Ùˆ:

”بسم اللہ الرحمن الرحیم“:سھیل بن عمرنے،جو مشرکین کانمائندہ تھا ،کھا :میںاس قسم کے جملہ سے آشنا نھیں هو ں،لہٰذا”بسمک اللھم“ لکھو:پیغمبر نے فرمایا لکھو :”بسمک اللھم“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next