زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



کیسے ممکن Ú¾Û’ کہ ایک عقلمند اورسمجھ دار انسان نتیجے Ú©Û’ متعلق اطمینان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے Û” اسی لئے تو کھا جاتا Ú¾Û’ کہ پیغمبراکرم Ú©ÛŒ طرف سے دعوت مباھلہ اپنے نتائج سے قطع نظر،آپ  Ú©ÛŒ دعوت Ú©ÛŒ صداقت اور ایمان Ú©ÛŒ دلیل بھی Ú¾Û’Û”

اسلامی روایات میں ھے کہ”مباھلہ“کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مھلت چاھی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں۔ مشورہ کی یہ بات ان کی نفسیاتی حالت کی چغلی کھاتی ھے۔

بھر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے ما بین یہ طے پایاکہ اگر محمد شور وغل،مجمع اور دادوفریادکے ساتھ”مباھلہ“کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اورمباھلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نھیں ،جب بھی شوروغل کا سھارا لیا جائے گا اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں،بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاھیے کہ وہ خدا کے پیغمبرھیں اور اس صورت میں اس سے ”مباھلہ“کرنے سے پرھیز کرنا چاھیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطرناک ھے!۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباھلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین(ع) کو گود میں لئے حسن(ع) کا ھاتھ پکڑے اور علی (ع) اور فاطمہ(ع) کو ھمراہ لئے آپہنچے ھیں اور انھیں فرمارھے ھیں کہ جب میں دعاکروں ،تم آمین کہنا۔

عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتھائی پریشان هوئے اور مباھلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لئے تیار هوگئے اور اھل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ هوگئے ۔

عظمت اھل بیت کی ایک زندہ سند

شیعہ اورسنی مفسرین اور محدثین نے تصریح کی ھے کہ آیہٴ مباھلہ اھل بیت رسول علیھم السلام کی شان میں نازل هوئی ھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جن افراد کو اپنے ھمراہ وعدہ گاہ کی طرف لے گئے تھے وہ صرف ان کے بیٹے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ،ان کی بیٹی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور حضرت علی (ع) تھے ۔ اس بناء پر آیت میں ”ابنائنا “سے مراد صرف امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ھیں۔”نسائنا“سے مراد جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا ھیں اور”انفسنا“ سے مراد صرف حضرت علی (ع) ھیں۔

اس سلسلے میں بہت سی احادیث نقل هوئی ھیں۔ اھل سنت کے بعض مفسرین نے جوبہت ھی تعداد میں ھیں۔ اس سلسلے میں وارد هونے والی احادیث کا انکار کرنے کی کوشش کی ھے۔ مثلاًمولفِ”المنار“نے اس آیت کے ذیل میں کھا ھے:

”یہ تمام روایات شیعہ طریقوں سے مروی ھیں،ان کا مقصد معین ھے،انهوں نے ان احادیث کی نشرو اشاعت اور ترویج کی کوشش کی ھے۔ جس سے بہت سے علماء اھل سنت کو بھی اشتباہ هوگیا ھے“!!۔

لیکن اھل سنت کی بنیادی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نشاندھی کرتی ھیں کہ ان میں سے بہت سے طریقوں کا شیعوں یا ان کی کتابوں سے ھرگز کوئی تعلق نھیںھے اور اگر اھل سنت کے طریقوںسے مروی ان احادیث کا انکار کیا جائے تو ان کی باقی احادیث اورکتب بھی درجہٴ اعتبار سے گرجائیں گی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next