زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



قرآن اس ماجرا تفصیل بیان کرتے هوئے کہتا ھے: ”اے وہ لوگ! جو ایمان لائے هو، اپنے اوپر خدا کی عظیم نعمت کو یاد کرو،اس موقع پر جب کہ عظیم لشکر تمھاری طرف آئے “۔[50]

”لیکن ھم نے ان پر آندھی اور طوفان بھیجے اور ایسے لشکر جنھیں تم نھیں دیکھتے رھے تھے اور اس ذریعہ سے ھم نے ان کی سرکوبی کی اور انھیں تتر بتر کردیا “۔[51]

” نہ دکھنے والے لشکر “ سے مراد جو رسالت مآب  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ú©ÛŒ نصرت Ú©Û’ لئے آئے تھے ØŒ ÙˆÚ¾ÛŒ فرشتے تھے جن کا مومنین Ú©ÛŒ جنگ بدر میں مدد کرنا بھی صراحت Ú©Û’ ساتھ قرآن مجید میں آیا Ú¾Û’ لیکن جیسا (کہ سورہٴ انفال Ú©ÛŒ آیہ Û¹ Ú©Û’ ذیل میں) Ú¾Ù… بیان کرچکے ھیں ھمارے پاس کوئی دلیل نھیں Ú¾Û’ کہ یہ نظر نہ آنے والا فرشتوں کا خدائی لشکر باقاعدہ طور پر میدان میں داخل هوا اور وہ جنگ میں بھی مصروف هوا هو بلکہ ایسے قرائن موجود ھیں جو واضح کرتے ھیں کہ وہ صرف مومنین Ú©Û’ حوصلے بلند کرنے اور ان کا دل بڑھانے Ú©Û’ لئے نازل هوئے تھے Û”

بعد والی آیت جو جنگ احزاب کی بحرانی کیفیت ، دشمنوں کی عظیم طاقت اور بہت سے مسلمانوں کی شدید پریشانی کی تصویر کشی کرتے هوئے یوں کہتی ھے !” اس وقت کو یاد کرو جب وہ تمھارے شھر کے اوپر اور نیچے سے داخل هوگئے ،اور مدینہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا) اور اس وقت کو جب آنکھیں شدت وحشت سے پتھرا گئی تھیں اور جاںبلب هوگئے تھے اور خدا کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیان کرتے تھے “۔[52]

اس کیفیت سے مسلمانوں کی ایک جماعت کے لئے غلط قسم کے گمان پیدا هوگئے تھے کیونکہ وہ ابھی تک ایمانی قوت کے لحاظ سے کمال کے مرحلہ تک نھیں پہنچ پائے تھے یہ وھی لوگ ھیں جن کے بارے میں بعد والی آیت میں کہتا ھے کہ وہ شدت سے متزلزل هوئے ۔

شایدان میں سے Ú©Ú†Ú¾ لوگ گمان کرتے تھے کہ آخر کار Ú¾Ù… شکست کھا جائیں Ú¯Û’ اور اس قوت Ùˆ طاقت Ú©Û’ ساتھ دشمن کا لشکر کامیاب هوجائے گا، اسلام Ú©Û’ ز ندگی Ú©Û’ آخر ÛŒ دن آپہنچے ھیں اور پیغمبر  کا کا میابی کا وعدہ بھی پورا هوتا دکھا ئی نھیںدیتا Û”

ٰٰالبتہ یہ افکار اور نظریات ایک عقیدہ کی صورت میں نھیں بلکہ ایک وسوسہ کی شکل میں بعض لوگوںکے دل کی گھرائیوں میں پیدا هو گئے تھے بالکل ویسے ھی جیسے جنگ احد کے سلسلہ میں قرآن مجید ان کا ذکر کرتے هو ئے کہتا ھے :”یعنی تم میں سے ایک گروہ جنگ کے ان بحرانی لمحات میںصرف اپنی جان کی فکر میں تھا اور دورجا ھلیت کے گمانوں کی مانند خدا کے بارے میں بدگمانی کررھے تھے “۔

یھی وہ منزل تھی کہ خدائی امتحان کا تنور سخت گرم هوا جیسا کہ بعد والی آیت کہتی ھے کہ ”وھاں مومنین کو آزمایا گیا اور وہ سخت دھل گئے تھے۔[53]

فطری امر ھے کہ جب انسان فکری طوفانوںمیںگھر جاتا ھے تو اس کا جسم بھی ان طوفانوں سے لا تعلق نھیں رہ سکتا ،بلکہ وہ بھی اضطراب اور تزلزل کے سمندر میں ڈوبنے لگتا ھے ،ھم نے اکثر دیکھا ھے کہ جب لوگ ذہنی طور پر پریشان هوتے ھیں تو وہ جھاں بھی بیٹھتے ھیں اکثر بے چین رہتے ھیں، ھاتھ ملتے کاپنتے رہتے ھیں اور اپنے اضطراب اور پریشانیوںکو اپنی حرکات سے ظاھر کرتے رہتے ھیں۔

اس شدید پریشانی کے شواہد میں سے ایک یہ بھی تھا جسے مورخین نے بھی نقل کیا ھے کہ عرب کے پانچ مشهور جنگجو پھلوان جن کا سردار عمرو بن عبدود تھا ،جنگ کا لباس پہن کر اورمخصوص غرور اور تکبر کے ساتھ میدان میں آئے اور ”ھل من مبارز“( ھے کو ئی مقابلہ کرنے والا )کی آواز لگانے لگے ، خاص کر عمرو بن عبدود رجز پڑھ کر جنت اور آخرت کا مذاق اڑا رھا تھا ،وہ کہہ رھا تھا کہ ”کیا تم یہ نھیںکہتے هوکہ تمھارے مقتول جنت میں جائیں گے ؟تو کیا تم میں سے کوئی بھی جنت کے دیدار کا شوقین نھیںھے ؟لیکن اس کے ان نعروں کے برخلاف لشکر اسلام پر بُری طرح کی خاموشی طاری تھی اور کوئی بھی مقابلہ کی جر ائت نھیںرکھتا تھا سوائے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے جو مقابلہ کے لئے کھڑے هوئے اور مسلمانوں کو عظیم کامیابی سے ھم کنار کردیا ۔اس کی تفصیل نکات کی بحث میںآئےگی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next