زندگانی حضرت محمد مصطفی(ص) قرآن کی روشنی میں



جب وہ قریب پہنچا او رلوگوںنے اسے پہچان لیا تو کہنے لگے : جی ھاں ؛ ابو حثیمہ ھے ۔

اس Ù†Û’ اپنا اونٹ زمین پر بٹھایا او رپیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم Ú©ÛŒ خدمت میں سلام عرض کیا او راپنا ماجرابیان کیا Û”

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ اسے خوش آمدید کھا اور اس Ú©Û’ حق میں دعا فرمائی Û”

اس طرح وہ ایک ایسا شخص تھا جس کا دل باطل کی طرف مائل هوگیا تھا لیکن اس کی روحانی آمادگی کی بنا ء پر خدا نے اسے حق کی طرف متوجہ کیا اور ثبات قدم بھی عطا کیا ۔

جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین لوگ

مسلمانوں میں سے تین افراد کعب بن مالک ،مرارہ بن ربیع او ربلال بن امیہ نے جنگ تبوک میںشرکت نہ کی او رانھوںنے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ھمراہ سفر نہ کیا وہ منافقین میں شامل نھیں هو نا چاہتے تھے بلکہ ایسا انھوںنے سستی اور کاھلی کی بنا پر کیا تھا،تھوڑا ھی عرصہ گذرا تھا کہ وہ اپنے کئے پر نادم اور پشیمان هوگئے۔

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم میدان تبوک سے مدینہ لوٹے تو وہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر هوئے اور معذرت Ú©ÛŒ لیکن رسول اللہ Ù†Û’ ان سے ایک لفظ تک نہ کھا اور مسلمانوں Ú©Ùˆ بھی Ø­Ú©Ù… دیا کہ کوئی شخص ان سے بات چیت نہ کرے وہ ایک عجیب معاشرتی دباؤ کا شکار هوگئے یھاں تک کہ ان Ú©Û’ چھوٹے بچے او رعورتیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم Ú©Û’ پاس آئیں او راجازت چاھی کہ ان سے الگ هو جائیں ،آپ  صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ انھیں علیحدگی Ú©ÛŒ اجازت تو نہ دی لیکن Ø­Ú©Ù… دیا کہ ان Ú©Û’ قریب نہ جائیں،مدینہ Ú©ÛŒ فضااپنی وسعت Ú©Û’ باوجود ان پر تنگ هو گئی ،وہ مجبور هوگئے کہ اتنی بڑی ذلت اوررسوائی سے نجات حاصل کرنے Ú©Û’ لئے شھر چھوڑدیں اوراطراف مدینہ Ú©Û’ پھاڑوں Ú©ÛŒ چوٹی پر جاکر پناہ لیں۔

جن باتوںنے ان کے جذبات پر شدید ضرب لگائی ان میں سے ایک یہ تھی کہ کعب بن مالک کہتا ھے :میںایک دن بازار مدینہ میں پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھاکہ ایک شامی عیسائی مجھے تلاش کرتا هوا آیا، جب اس نے مجھے پہچان لیا تو بادشاہ غسان کی طرف سے ایک خط میرے ھاتھ میںدیا ، اس میں لکھاتھا کہ اگر تیرے ساتھی نے تجھے دھتکاردیا ھے تو ھماری طرف چلے آؤ، میری حالت منقلب اور غیر هوگئی ،اور میں نے کھا وائے هو مجھ پر میرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ھے کہ دشمن میرے بارے میں لالچ کرنے لگے ھیں، خلاصہ یہ کہ ان کے اعزا ء واقارب ان کے پاس کھانالے آتے مگر ان سے ایک لفظ بھی نہ کہتے ،کچھ مدت اسی صورت میں گزر گئی او روہ مسلسل انتظار میں تھے کہ اس کی توبہ قبول هو اورکوئی آیت نازل هو جو ان کی توبہ کی دلیل بنے ، مگر کوئی خبر نہ تھی ۔

اس دوران ان میں سے ایک کے ذہن میںیہ بات آئی او راس نے دوسروں سے کھا اب جبکہ لوگوں نے ھم سے قطع تعلق کر لیا ھے ،کیا ھی بہتر ھے کہ ھم بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیں (یہ ٹھیک ھے کہ ھم گنہ گار ھیں لیکن مناسب ھے کہ دوسرے گنہ گار سے خوش او رراضی نہ هوں)۔

انھوں نے ایسا ھی کیا یھاں تک کہ ایک لفظ بھی ایک دوسرے سے نھیںکہتے تھے اوران میںسے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نھیں رہتا تھا،اس طرح پچاس دن انھوںنے توبہ وزاری کی او رآخر کار ان کی توبہ قبول هوگئی ۔[104]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 next